Get Alerts

پہلی بینظیر بھٹو حکومت کیوں برطرف کی گئی؟ 6 اگست 1990 کی کچھ یادیں

پہلی بینظیر بھٹو حکومت کیوں برطرف کی گئی؟ 6 اگست 1990 کی کچھ یادیں
6 اگست 1990 کو شام 5 بجے پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے ایوان صدر میں اچانک ایک اخباری کانفرنس بلا لی۔ اس موقع پر مشترکہ افواج کے تینوں سربراہ بھی موجود تھے اور وہاں صدر نے بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور قومی اسمبلی کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

اس برطرفی کی کہانی یوں بڑی دلچسپ ہے کہ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 90 کی دہائی میں پاکستان کی منتخب سویلین حکومتیں کتنے مشکل حالات میں کام کرتی رہیں اور ان کی کتنی زیادہ مخالفت رہی، ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جس پر جنرل ضیا الحق اور فوج کے حامی غالب تھے۔

صدر غلام اسحاق نے برطرفی کا یہ دھماکہ خیز اعلان شام 5 بجے کیا لیکن صبح ایک اخبار پہلے ہی حکومت کی اٰسی روز برطرفی کے امکان کی خبر شائع کر چکا تھا۔ یہ خبر عارف نظامی نے انگریزی روزنامہ دا نیشن میں چھاپی تھی جس کی سرخی تھی کہ ’امکان ہے کہ حکومت کو ختم کر دیا جائے گا‘۔ سویلین حکومت کے متعلقہ اہلکار دن بھر اس خبر کی تصدیق یا تردید کی تلاش میں رہے۔ ایک وفاقی وزیر خواجہ طارق رحیم نے عارف نظامی کو صبح فون کر کے خبر کے بارے میں پوچھا۔ اُنہوں نے جواب میں کہا کہ مجھ سے بات کرنے کے بجائے آپ اپنی حکومت بچانے کی کوشش کریں، جس پر لائن کٹ گئی۔ جب عارف نظامی نے ان کو کال کیا تو آپریٹر نے بتایا کہ خواجہ طارق رحیم ’وہاں سے جا چکے ہیں‘۔

صبح 9:30 پر حکومت کے ایک مشیر ہیپی مِن والا کو ایوان صدر میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلی ملے جو صدر غلام اسحاق خان سے ملاقت کے بعد وہاں سے نکل رہے تھے۔ امریکی سفیر نے مشیر کو بتایا کہ صدر نے ان سے حکومت کی برطرفی کی تردید کر دی ہے۔ مِنوالا خود جب صدر سے ملے تو صدر غلام اسحاق نے ان کو بھی یہی بتایا لیکن بقول عارف نظامی ان کا جواب مکمل تردید نہیں تھی بلکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ’کوئی غیر آئینی فعل نہیں کریں گے‘۔ وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے کابینہ کی ایکومنامک کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کی سربراہی کی لیکن اس کے کئی گھنٹے بعد ساڑھے تین بجے کے قریب اسلام آباد میں وسیع پیمانے پر فوج کی حرکت دکھائی دی اور مسلح دستوں نے وزیر اعظم سیکرٹریٹ، پاکستان ٹیلی وژن سینٹراور ریڈیو پاکستان سمیت اہم مقامت پر پوژیشنیں سنبھال لیں۔

قریب پونے 5 بجے، یعنی اعلان سے بالکل پہلے، صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم کو فون کر کے کہا کہ وہ حکومت برطرف کرنے والے ہیں۔ وزیر اعظم نے ان سے پوچھا کہ صبح جب ان سے پوچھا گیا تھا تب یہ کیوں نہیں بتایا تو صدر نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ انہوں نے دوپہرکو ہی کیا ہے۔

لیکن شاید حقیقت کچھ اور تھی اور حکومت کو ہٹانے کا فیصلہ پہلے ہو چکا تھا۔ صرف طریقہ کار اور تاریخ تبدیل کی گئی۔ اس وقت فوج کے اندر کے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ یہ طے تھا کہ بینظر بھٹو کو ہٹانا ہے لیکن اس کا پسندیدہ طریقہ پارلیمانی ’جوڑ توڑ‘ تھا۔ یاد رہے کہ برطرفی سے آٹھ ماہ پہلے یعنی نومبر 1989 میں یہ طریقہ آزمایا گیا تھا جب آئی ایس آئی سے منسلک اہلکاروں نے اسمبلی ممبران کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کے لئے خریدنے کی کوشش کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے کچھ ان ہی طریقوں سے اپنی حکومت بچا لی تھی۔ بریگیڈیئر امتیاز ’بِلّہ‘ اور میجر عامر نامی اہلکاروں پر مقدمہ بھی درج ہوا لیکن دفاع میں کہا گیا کہ منصوبے سے آئی ایس آئی کے ادارے کا تعلق نہیں تھا اور وہ ’روگ آپریٹویز‘ کے طور پر یعنی دونوں خود ہی یہ سارا منصوبہ چلا رہے تھے (جس میں کروڑوں کا خرچہ تھا)۔

6 اگست کی برطرفی سے کئی ہفتے پہلے ہی حکومت کے خاتمے کی افواہیں گرم تھیں اور قیاس آرائیاں عروج پر تھیں لیکن پھر بھی یہ سب کچھ اچانک ہی ہو گیا۔ لیکن عدام اعتماد کے ووٹ کے بجائے آئین کے آرٹیکل 58(2)(B) کے ذریعے یعنی صدارتی حکم سے حکومت ختم کرنے کا فیصلہ برطرفی کم از کم دو روز پہلے کر دیا گیا تھا کیونکہ اطلاعات کے مطابق 4 اگست کوجی ایچ کیو سے ایک پیغام متحدہ اپوزیشن اتحاد (سی او پی) کے رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کو پہنچایا گیا۔ پیغام لے جانے والے شخص نے جتوئی سے کہا کہ وہ فوراً یہ اعلان کر دیں کہ 8 اگست کو جب قومی اسمبلی کا پھر اجلاس ہوگا تو وہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ایک اور ووٹ لانے کی درخواست پیش کریں گے۔ جتوئی نے یہ اعلان کر دیا، حالانکہ ان کی اپنی جماعت اور اتحاد کے رہنماؤں کو اس کا کوئی علم نہیں تھا اور وہ یہ سن کر کافی حیران ہوئے۔ لیکن شاید یہ صرف حکومت کی توجہ دوسری طرف کرانے کے مقصد سے نہں کیا گیا بلکہ اس مقصد سے بھی کہ برطرفی کے خدشے کے تحت بینظیر بھٹو خود اسمبلیاں برخاست نہ کر دیں (جو کہ ان کا آئینی اختیار تھا)۔ بقول تجزیہ کار (اور اس وقت صحافی) ملیحہ لودھی کے، ایسے کرنے سے بینظیر بھٹو کو یہ فائدہ ہوتا کہ ایک تو نئے اتنخابات کے ہو جانے تک وہی عبوری وزیر اعظم رہتیں اور دوسرا یہ کہ صدر کو ان کے خلاف الزامات لگانے کا موقع نہ ملتا۔

معلوم ہوتا ہے کہ برطرفی کا تفصیلی منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا اور صدر غلام اسحاق خان کا یہ کہنا کہ انہوں نے ’فیصلہ دوپہر 6 اگست کو ہی کیا‘ صحیح نہیں تھا۔ لیکن شاید اس میں تھوڑی سی سچائی یہ تھی کہ اس روز یہ کرنے کا فیصلہ ضرور اچانک تھا۔ عارف نظامی کہتے ہیں کہ ان کو بعد میں کسی نے بتایا کہ پلان یہ تھا کہ حکومت کو 7 تاریخ کو برطرف کیا جائے لیکن ان کے اخبار کی سرخی کے بعد یہ طے ہوا اس کو جلدی فارغ کر دیا جائے۔

حقیقت جو بھی ہے، ایک بات واضح ہے کہ منصوبہ بندی پوری تھی۔ جب فوج کے دستے حرکت میں آنے شروع ہوئے تو کامران شفیع وزیر اعظم کے پاس پہنچے تاکہ صحافیوں کے لئے ایک بیان تیار کیا جائے۔ بینظیر بھٹو کی رہائش سندھ ہاؤس میں تھی اور وہ کہتے ہیں کہ جب بینظیر بھٹو نے وہاں چائے کا آردڈر دیا تو ان کو بتایا گیا کہ چائے نہیں لائی جا سکتی کیونکہ ’وہ سارے برتن بند کر گئے ہیں‘ یعنی باورچی خانہ اور تمام راشن اور برتنوں کو بند کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح صدر کے اعلان کے فوراً بعد جس نے بھی بینظیر سے بات کرنے کے لئے فون کیا، آپریٹر اس سے کہتے ’وزیر اعظم یہاں سے منتقل ہو گئی ہیں‘۔ صدر کے اعلان اور غلام مصطفیٰ جتوئی کی بطورعبوری وزیر اعظم حلف برداری کے بعد پی ایم ہاؤس کے آپریٹر لوگوں کو جواب دینے لگے کہ ’کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟ سابق وزیر اعظم سے یا وزیر اعظم سے؟‘ عارف نظامی کہتے ہیں کہ سوئچ بورڈ کا کنٹرول تو صبح سے ہی تھا، جب ان کو آپریٹر نے بتایا تھا کہ ’طارق رحیم وہاں سے چلے گئے ہیں۔‘

کیوں نکالا؟

فوج اور صدر نے برطرفی کا فیصلہ کیا کیوں؟ مختلف لوگ مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں کیونکہ بے شمار باتوں پر فوج اور حکومت میں اختلاف رہا۔ ایک تو جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کا حکومت کا فیصلہ فوج کو بہت بُرا لگا۔ پھرسندھ کی صورتحال کا معاملہ تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کے سندھ میں سابق اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ تصادم کے واقعات میں اضافہ اور پکا قلعہ کے خونی واقعہ کے بعد فوج چاہتی تھی کہ وہ آرٹیکل 245 کے ذریعے صوبے کا کنٹرول سنبھال لے لیکن پیپلز پارٹی نے اسے ہونے نہیں دیا۔ ان سارے مسائل میں یقیناً خارجہ پالسی بھی ایک سنگین معاملہ تھا۔ پیپلز پارٹی کی افغان پالیسی فوج کی پالیسی سے مختلف تھی اور حکومت بھارت سے بھی تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسی سلسلے میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی اور ان کی اہلیہ بھی 1989 میں اسلام آباد آئے۔ یوں فوج یہ بینایہ دہراتی تھی کے بینظیر بھٹو در اصل ’ملک کی سلامتی کے لئے ایک خطرہ ہیں‘ اور وہ بار بار کہتے کہ حکومت مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ نہیں ہے۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اُن کی ٹیم کو ’حکومت کرنے کا ڈھنگ نہیں تھا‘ اور ان کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ جنرل ضیاالحق کےاقتدار کے گیارہ سال کے بعد ان کے حامیوں یعنی ’باقیات‘ سے تصادم اپنانے میں کتنے خطرات تھے۔ بدعنوانی اور نااہلی کے بھی بعد میں بہت سے الزامات لگے۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا ایک بات طے ہے اور وہ یہ کہ بینظیر بھٹو اور فوج میں اعتماد کا بہت بڑا فقدان تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے پر شک تھا اور دونوں کا خیال تھا کہ دوسرا ہی ان کا ماتحت ہے۔ اور یہی صورتحال شاید آج تک پاکسان میں چلی آ رہی ہے۔

اخبارات اور میڈیا

اُس زمانے میں درجنوں ٹی وی چینل تو نہیں تھے لیکن اخبارات اور افواہوں کا اہم کردار ضرور تھا۔ صحافیوں کو اپنی جانب ’راغب کرنے‘ کے کھیل میں بھی بینظیر شریک نہیں ہونا چاہتی تھیں۔ کامران شفیع پریس انفارمیشن آفسر تھے اور انہوں نے بینظیر بھٹو سے اس پر بات کی۔ وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اپنی ایک بات چیت کا احوال یاد کرتے ہیں۔
’’میں ان سے ملنے کے لئے گیا۔ وہ شام کو واک کے لئے جایا کرتی تھیں۔ وہ سندھ ہاؤس سے واک کے لئے جایا کرتی تھیں۔ وہ اچھے دن تھے۔ وزیر اعظم تک بغیر گارڈز کے باہر جا سکتے تھے۔ لہٰذا بہت سے لوگ جن سے وہ بات کرنا چاہتی تھیں، انہیں واک پر ساتھ چلنے کے لئے کہہ دیا کرتی تھیں۔ لہٰذا جب مجھے وقت دیا تو انہوں نے کہا کہ کامران آپ واک کرنے کے لئے فٹ ہیں، میں نے کہا جی بالکل۔ لہٰذا ہم صرف دونوں واک کر رہے تھے اور باقی لوگ پیچھے تھے۔ میں نے کہا مجھے پیسے چاہئیں۔ انہوں نے پوچھا، کیوں چاہئیں؟ میں نے صاف کہا کہ پریس کو رشوت دینی ہے۔ انہوں نے کہا، کیا؟ میں نے کہا جی بالکل، میں نے یہی کہا ہے۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ دوسرے بھی میڈیا کو رشوت دے رہے ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہم ان کے جیسے ہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ تو پھر آپ پیسے کیوں مانگ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ قاعدے ان کے طے کردہ ہیں اور جب وہ پیسہ لگا رہے ہوں گے تو بساط وہ بچھائیں گے اور یہ آپ کے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ وہ جو کرنا چاہتے ہیں، انہیں کرنے دیں۔ ہم پریس کو رشوت نہیں دیں گے۔‘‘

لیکن میڈیا کے ساتھ اصولوں کی اس پالیسی سے ان کو کافی نقصان ہوا۔ وزیر اعظم اور حکومت کے خلاف خبریں اور افواہیں چلانا آسان تھا۔ جنرل ضیا نے اپنے دور میں کئی ہم خیال لوگوں کو اثاثہ سمجھ کران میں انویسٹ کیا تھا اور وہی لوگ بعد میں بہت بڑے نام بن گئے اور خبروں کی دنیا میں ان کا اثر و رسوخ کافی ہو گیا۔ عارف نظامی کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو نے صحافتی اصولوں کا بڑا احترام کیا۔ ’ان کو کریڈٹ دینا ضروری ہے، میرا ان سے سالوں تک مسلسل رابطہ رہا، ان کی موت تک رابطہ رہا اور اچھے تعلقات تھے لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ برطرفی کی خبر مجھے کہاں سے ملی اور میرا ذریعہ معلومات (سورس) کون تھا۔ اس سے ان کی (بینظر کی) پروفیشنلزم اور شرافت کا اندازہ ہوتا ہے۔‘
حکومت کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پی ٹی وی نیوز تک میں خبر نہیں لگوا سکتی تھی۔ کامران شفیع کہتے ہیں کہ اس زمانے میں اخبارات میں یہ بات چلائی جا رہی تھی کہ مسلمان ملک میں ایک عورت کا حکمران ہونا مذہب کے خلاف ہے، تو مشرق وسطیٰ کے ایک دورے پر وزیر اعظم نے یمن میں ان کے سینیئر امام سے اس بارے میں پوچھا۔ کہتے ہیں کہ وہ بھی اس اجلاس میں شریک تھے اور امام نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے اسلام میں۔ آپ بالکل مسلمان ملک کی سربراہ ہو سکتی ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ پھر اس امام کا انٹرویو کیا گیا تاکہ یہ پی ٹی وی پر چلے۔ بقول کامران شفیع کے پی ٹی وی نیوز کے ڈائریکٹر نے اس کو چلانے سے انکار کر دیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ پھر خود پی ٹی وی پہنچے جہاں انہوں نے خوب شور مچایا اور وہ کلپ چلوایا۔ ’لیکن بعد میں اخبارات میں میرے خلاف بہت خبریں چلیں جس میں مجھے بہت برا اور بدتمیز دکھایا گیا۔‘

آرٹیکل 58(2)(B) اور آج کے حالات

بینظیر بھٹو نومبر 1988 کے انتخابات مں کامیاب ہوئی تھیں لیکن کچھ تاخیر کے بعد ان کو دسمبر میں اقتدار ملا۔ ایک سال کے اندر ہی ان کو پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ سے ہٹانے کی کوشش کی گئی اور پھر اس کے آٹھ ہی ماہ بعد ان کی حکومت کو آرٹیکل 58(2)(B) کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ مئی 1988 میں اسی آئینی شق کے ذریعے فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے محمد خان جنیجو کی حکومت کو برطرف کیا تھا۔ پھر اپریل 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے اسی شق کو استعمال کر کے نواز شریف کی حکومت ختم کی اور پھر نومبر 1996 میں صدر فاروق لغاری نے اسی شق کے ذریعے سے بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت ختم کی۔ ہر مرتبہ نااہلی اور بدعنوای کے الزامات لگائے گئے اور سیاست دانوں کو متعدد مقدمات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ الزام تراشی کا یہ سلسلہ میڈیا میں بھی جاری رکھا گیا۔

جب بینظیر کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی 2008 میں اقتدار میں آئی تو بینظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری صدر بنے اور پیپلز پارٹی حکومت نے اس آئینی شق کو ختم کر دیا (اس سے قبل 1997 میں بھی اس شق کو ختم کیا گیا تھا لیکن جنرل مشرف نے اسے دوبارہ آئین میں شامل کر دیا تھا)۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کے نہ ہونے کے باوجود بھی حکومتیں ختم کرنے اور سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے۔ جب عزم و ارادہ پکا ہو اور بندے راضی ہوں تو شاید کوئی نہ کوئی طریق کار مل ہی جاتا ہے۔