آمرانہ دور کے پاپولسٹ بیانیے کا مقابلہ بینظیر بھٹو نے آئیڈیالوجی کے ساتھ کیا

آمرانہ دور کے پاپولسٹ بیانیے کا مقابلہ بینظیر بھٹو نے آئیڈیالوجی کے ساتھ کیا
یہ بات درست ہو سکتی ہے کہ پچھلی ایک آدھ دہائی سے پاکستانی سیاست اور گورننس کے تقریباً تمام تر مسائل کو پاپولزم کا چشمہ پہن کر دیکھا جا رہا ہے اور دکھایا جا رہا ہے، مطلب کہ پاپولزم عروج پر ہے۔ مگر، شاید یہ بات کہنا غلط ہو گا کہ پاکستانی سیاست کو اس سے پہلے کبھی پاپولسٹ نعروں کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا گیا۔

غداری، مذہبی ٹچ، برصغیر پاک و ہند (ہندوستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والے مسلمانوں کا نہیں بلکہ صرف اسی خطے میں آباد) مسلمانوں کا ایک بڑا اور مشترکہ دشمن، کرزمیٹک لیڈر شپ وغیرہ وغیرہ، یہ سب کچھ پاکستان بننے سے بھی پہلے ہماری سیاست اور کمزور سی جمہوریت کے بنیادی عناصر رہے ہیں۔

تاہم موجودہ پاپولسٹ بیانیوں نے ایک ایسا کام کیا جو پاکستان کے کسی بھی پاپولسٹ لیڈر نے نہیں کیا اور وہ ہے یہاں کی 'نام نہاد' جمہوریت سے طبقاتی کشمکش اور انقلاب جیسے تصورات کو نکال باہر کرنا اور ایسا پاکستان تحریک انصاف نے یا پھر دوسرے لفظوں میں پروجیکٹ عمران نے قصداً کیا یا ان سے کروایا گیا، جو بھی ہو، نتیجہ اس کا یہی نکلا کہ اب پاکستانی جمہوریت کا مطلب ہے کراچی، لاہور، اسلام آباد وغیرہ کی مڈل/اپر مڈل کلاس۔

اب اس کلاس کا انقلاب جیسا ہے وہ تو ہم سب نے دیکھ لیا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب جبکہ پروجیکٹ عمران کو گرا کر اس کا ملبہ صاف کیا جا رہا ہے تو بھی یہ کہہ کر کہ ہمیں عمرانی پاپولزم اس لیے نہیں چاہئیے کہ وہ ذرا ریڈکل ہے، تھوڑا ایکسٹریم ہے، ہم اسے صاف کر کے وہی پرانے والا پاپولزم لائیں گے جسے پاکستانی مڈل/اپر مڈل کلاس اپنی پاپولسٹ شناخت کے لیے برت سکے۔

شاید کرنے والے پاکستانی سیاست کے پاپولزم کو اپ ڈیٹ کر بھی دیں، اسے ری فرنش کر کے اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنا بھی دیں، لیکن وہ پاکستان تحریک انصاف کے ایک عمل کو کبھی بھی ان ڈو نہیں کریں گے اور وہ ہے انقلاب، طبقاتی کشمکش، اور کسان مزدور یا پھر روٹی کپڑا مکان جیسی مباحث کو لایعنی بنانے کا عمل۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا لیکن شاید ایسا ہونا ہی تھا۔ اس کا بیج تو اسی وقت بو دیا گیا تھا جب ضیاء الحق نے سیاست میں پیسہ اِن کیا، پاکستان پیپلز پارٹی یا دوسرے لفظوں میں روٹی کپڑے اور مکان کے نعرے کو پنجاب سے نکال باہر کرنے کا عزم کیا اور سیاست کو سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا۔

میں یہ بھی نہیں کہتا کہ جنرل ضیاء سے پہلے سب اچھا تھا، پہلے سرمایہ دار نہیں تھے وڈیرے تھے لیکن کوئی پبلک میں یہ نہیں بول سکتا تھا کہ جمہوریت اور گورننس کی حق دار صرف مڈل/اپر مڈل کلاس ہے۔

اور اب معاملہ یوں ہے کہ سیاست اور جمہوریت کے میدان کو سروائیول آف دی فٹسٹ بنا دیا گیا ہے اور سروائیو وہی کرے گا جو مزدوروں کسانوں کی نہیں بلکہ شہری پاپولزم کے اصولوں کے مطابق حب الوطنی، پاکستانیت اور ایسے ہی دیگر ریاستی بیانیوں کے ذریعے انتخابی مہم چلائے گا۔

تو کیا مطلب؟ روٹی کپڑا اور مکان کی سیاست ختم؟

انقلاب کا وہ تصور جس نے کبھی کسی جنریشن کو طبقاتی کشمکش سے لڑنے کا درس دیا تھا وہ بھی ختم؟

آئیڈیالوجی ختم؟ کمٹمنٹ ختم؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں، جب ضیاء الحق مڈل/اپر مڈل کلاس کی بے حسی کنسٹرکٹ کر رہا تھا، جمہوریت کے معنی (زبردستی) بدل رہا تھا، ڈسٹراٹ کر رہا تھا، پاپولزم کا بیج بو رہا تھا تو محترمہ بھی وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق اپنی سیاست کا رخ موڑ سکتی تھیں۔ 'عقل مندی' کا تقاضا تو یہی تھا کہ نئے روڈ میپ میں اپنی سپیس کنفرم کرنے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا سمجھوتہ کر لیا جاتا۔

لیکن بی بی شہید کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔۔۔

یہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا فیصلہ ہی تھا کہ انہوں نے اس وقت بھی سیاست میں آئیڈیالوجی کے سوال کو زندہ رکھا جب پنجاب کی زمین کو پیپلز پارٹی کے لیے تنگ کیا جا رہا تھا۔ میڈیا، سرکاری شاعروں، ادیبوں، ڈرامہ نگاروں اور ایکٹروں کے ذریعے سے میک شیور کیا جا رہا تھا کہ روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ ختم کر کے اس کے مقابلے میں یا تو آمریتوں کی بنائی قوم پرستی کو ایشو بنا دیا جائے یا پھر اپر پنجاب کی سرمایہ داری سے اٹی ہوئی 'ترقی' کو مثال بنا کر ایک نیا ووٹ بنک بنا دیا جائے۔

ہم نے دیکھا کہ وہ ووٹ بنک بنا بھی۔ قومیت، پاکستانیت، مذہب اور کلچر کے مباحث میں رائٹ کی طرف ٹِلٹ کرتا ہوا ووٹ بنک۔ اس ووٹ بنک میں وہ لوگ بھی بھرتی کروا لیے گئے جو پیپلز پارٹی کی ہی غریب دوست پالیسیوں کی وجہ سے لوئر مڈل کلاس سے مڈل کلاس تک آ گئے تھے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔

انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ضیاء الحق کا 'ایلیٹ پنجابی' ووٹ بنک آہستہ آہستہ اتنا لجٹمیٹ ہو گیا کہ پھر اسی ووٹ بنک کو اور زیادہ ریڈیکل بنانے کے لیے عمرانی پاپولزم ایجاد کرنا پڑا۔

میں پھر کہوں گا کہ پاپولزم کی دوڑ میں سیاسی جماعتوں کا پیش پیش رہنا، خواہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی کیوں نا ہو، ان کے سروائیول کا مسئلہ ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک پاکستانی جمہوریت یا سیاست کے دو فیز ہیں:

ایک؛ بی بی شہید کا غریب ہاری کسان اور مزدور سے کمٹمنٹ نبھانے کا وعدہ

اور دوسرا؛ 'حقیقی آزادی' کے جھوٹ کا پروپیگنڈا

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بی بی شہید جب تک زندہ رہیں، پاکستان کے کسان، مزدور اور ہاری کو امید رہی کہ مین سٹریم سیاست میں ان کا ووٹ کچھ نہ کچھ اہمیت رکھتا ہے۔

بی بی شہید نہیں رہیں لیکن اب جبکہ سیاسی قوتوں کی سپیس تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے اور انہیں خود کو ریلےونٹ رکھنے کے لیے پل پل بدلتے پاپولزم کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا پڑ رہا ہے، محترمہ کے سیاست میں آئیڈیالوجی کو اہمیت دینے کے فیصلے کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی ہے۔