Get Alerts

قم کا ابو جہل: آیت الله عباس تبریزیان‎

قم کا ابو جہل: آیت الله عباس تبریزیان‎
25 جنوری 2020 کو ایران کے مقدس مذہبی شہر قم کے حوزہ میں آیت الله عبّاس تبریزیان نامی ایک عالم دین کی جانب سے میڈیکل سائنس کی دنیا کے بڑے نام پروفیسر ہیرسن کی کتاب ’’انٹرنل میڈیسن‘‘ کی ایک جلد کو آگ لگاتے ہوئے بزعم خود کیمیائی علم طب کے زمانے کے خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ آیت الله شاید یہ نہیں جانتے کہ علم کی زبان میں سب اشیا کے اجزا جو ایٹموں سے مل کر بنے ہوتے ہیں، کیمیکل کہلاتے ہیں اور ان کی اپنی معجونیں بھی کیمیائی مرکبات ہی ہیں۔ اگرچہ ناکارہ اور کسی بیمار کے کام کی نہیں۔

تعجب کی بات ہے کہ قم نامی مدارس کا یہ شہر تہران سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور تہران میں میڈیکل سائنس کے بڑے بڑے ماہرین بیٹھے ہیں لیکن آیت الله ان کے علم کے نور سے محروم رہ کر ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ آیت الله کی اس علم سوزی والی حرکت نے ایسے بہت سے لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا جو بوکو حرام جیسی تنظیموں اور ملالہ کو گولی مارنے والے طالبان کی سوچ کے ایران میں پائے جانے کی امید نہیں کرتے تھے۔



یہ بھی پڑھیے: آیت اللہ سیستانی کا تمام نمازیں گھر میں ادا کرنے کا حکم، ایرانی علما کا معجونیں بیچنے پر زور







آیت الله تبریزیان ایک عرصے سے جدید علم طب کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے ایک اسلامی طب نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے ایران میں اچھا خاصہ کاروبار بنا لیا ہے۔ ہر شہر میں طبِ اسلامی کی دوائیں بیچنے کی دکانیں موجود ہیں جو مردانہ کمزوری سے لے کر کینسر تک کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے ایک لاکھ سے زیادہ فالؤر ہیں جو کبھی کبھار ایران میں جدید علوم کے خلاف مظاہرے بھی کرتے رہتے ہیں۔

ایران کے رہبر آیت الله خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ان کے لئے نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے بھی بڑا دغدغہ طبِ اسلامی کا احیا ہے۔ رہبر نے آیت الله تبریزیان کو قم میں ادارہ بنا کر دیا ہے جہاں وہ اپنی pseudo-science متعدد شاگردوں کو منتقل کر چکے ہیں۔



موصوف حوزہ میں درسِ خارج بھی دیتے رہے ہیں۔ ایران کے سرکاری ٹی وی چنیل پر آیت الله تبریزیان اور ان کے شاگردوں کو یہ کہانیاں پھیلانے کی پوری آزادی حاصل ہے، وہ مختلف پروگراموں میں بیٹھ کر معجونیں تجویز کرتے رہتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ کہ آیت الله کی کتاب سوزی کو ایک ماہ بھی نہیں ہوا کہ قم میں کرونا وائرس پہنچ چکا ہے۔ اس مقدس مذہبی شہر کو نہ کسی عارفِ کامل کی دعائیں اس وبا سے بچا سکی ہیں تو نہ آیت الله تبریزیان کی طبِ اسلامی کا کہیں نام و نشان ہے۔ ظاہر سی بات ہے، جو نام نہاد طب آج سے کئی سو سال پہلے طاعون، خسرہ، چیچک، ملیریا، وغیرہ جیسی بیماریوں کا کوئی علاج پیش نہیں کر سکی تھی، وہ کرونا وائرس کے خلاف کیوں کر مؤثر ثابت ہو سکتی ہے؟

حضرت عمرؓ کے زمانے میں طاعون کی وبا نے ایک لاکھ مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا، جن میں کئی اہم صحابہ بھی شامل ہیں، اور کوئی بھی بزرگ اس وبا کا توڑ نہیں کر سکا تھا۔

تازہ اطلاعات کے مطابق آیت اللہ تبریزیان کے شاگرد مولانا شہریار شریفی کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہ ایران کے قصبے صومعہ سرا میں مرکز طبِ معصومین کے منتظم تھے۔

آیت الله ایک ایسے رجز خوان کی طرح جو صرف میدان سے دور بیٹھ کر ڈینگیں مارتا ہے اور جنگ شروع ہونے پر فرار ہو جاتا ہے، اب تک اس وائرس کا کوئی قابلِ تجربہ و تصدیق علاج بتانے اور اس کو دنیا کے سامنے ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم آیت الله نے اپنے مریدوں کو کرونا وائرس سے بچنے کے لئے ایک مضحکہ خیر دستور العمل دیا ہے۔ آیت الله کے ٹیلی گرام چینل کے مطابق کرونا وائرس سے بچنے کے لئے یہ حرکتیں انجام دی جائیں:

  • کھانے پینے کی اشیا کو ڈھانپ کر رکھیں

  • بار باراپنے بالوں میں کنگھی کریں

  • پیاز زیادہ کھائیں

  • سیب کا استعمال بڑھا دیں

  • معجون امام کاظم خرید کر استعمال کریں

  • نسوار کو استعمال کریں

  • سونے سے پہلے روئی کو روغنِ بنفشہ (بنفشے کے تیل) میں بھگو کر اپنے مقعد میں ڈال لیں

  • بار بار ہرمل نامی بوٹی کو انگاروں میں رکھ کر گھر کو دھونی دیں

  • شلغم کھائیں

  • روٹی کا صدقہ دیں


کوئی بھی عقلمند شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ آیت الله کی یہ ہدایتیں کسی علمی معیار پر پوری نہیں اترتیں اور جاہل مریدوں کو بیوقوف بنا کر اپنی معجون امام کاظم نامی ڈبیہ بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دریں اثنا آیت الله خود عراق کے شہر نجف جا چکے ہیں اور ایران کے ڈاکٹرز عوام کو آیت الله کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں سے بچانے میں مصروف ہیں۔

بقول شخصے، کامن سینس اتنی کامن نہیں ہے۔ بہت سے لوگ اس آیت الله کے ہاتھوں جہانِ فانی کوالوادع کہہ چکے ہیں۔ آیت الله تبریزیان کے جھانسے میں آ کر زندگی کی بازی ہارنے والوں میں نمایاں ترین نام ایران کے سابقہ چیف جسٹس آیت الله شاہرودی کا ہے۔ ان کے بیٹے کے بقول جب ڈاکٹر نے کینسر کی تشخیص کی اور آپریشن کروانے کا کہا تو طبِ اسلامی کے ٹھیکیدار آ گئے اور ان کے والد کو معجون دینے لگے۔ آپریشن نہ کروانے اور جدید ادویات سے پرہیز کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیت الله شاہرودی کا مرض بڑھتا گیا اور دو سال بعد انہیں جان بچانے کے لئے جرمنی کے شہر ہینوور کے ایک اسپتال لے جایا گیا۔ لیکن وہاں مقیم ایرانیوں نے اسپتال کے باہر سابقہ چیف جسٹس کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج شروع کر دیا اور عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کر کے ان کی گرفتاری کی کوششیں شروع کر دیں۔ چنانچہ آیت الله شاہرودی کو واپس ایران لانا پڑ گیا جہاں وہ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

اس مثال سے علما نے کچھ عبرت حاصل کی، اور جب آیت الله خامنہ ای کو پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہوئی تو انہوں نے آپریشن کرانے میں دیر نہ کی۔
آیت الله تبریزیان کی یہ جہالت اصل میں مدارس کو درپیش ایک بہت بڑے بحران کی ایک جھلک ہے۔ اصل مسئلہ کسی ایک آیت الله کا نہیں، مدارس پر مسلط اس سوچ کا ہے کہ سائنس اسلام کے خلاف مغرب کی سازش ہے، کیوں کہ سائنس اور عقلی علوم نے علما سے حکمت اور عدلیہ کی نوکریاں چھین لی ہیں۔ چنانچہ وہ قانون، علم اور سیاست کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا اضافہ کر کے ایک ایسی شیخ چلی والی خیالی دنیا کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ جج، وہی طبیب اور وہی وزیر اعظم ہوں، وہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح زندگی کے ہر راستے کو اپنے طبقے کے قابو میں لانے کی ہوس میں مبتلا ہیں۔



جب سے عقلی علوم نے جدید مغرب میں معراج پائی ہے، ہمارے علمائے کرام کو ان کی ایک نام نہاد ’’اسلامی اور حلال‘‘ نقل تیار کرنے کی بیماری لاحق ہو گئی ہے۔ ایک مقدس جہاد لانچ کر دیا گیا ہے اور اس جہالت کے خلاف بات کرنے والے کو دین کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ علم انسان کا مشترکہ ورثہ ہے اور اس کے حصول کے لئے انسان کو وحی کی ضرورت نہیں۔ ہر انسان ایک جیسا علم حاصل کر سکتا ہے اور علم ہر انسان کی سمجھ میں آ سکتا ہے۔

دین کا معاملہ الگ ہے۔ دین صرف چنے ہوئے انبیا پر نازل ہوا ہے اور اس کا وسیلہ وحی ہے۔ اسی لئے انبیا اور دینی رہنماؤں نے کبھی کسی بیماری کا علاج دریافت نہیں کیا، نہ ہی اپنی امتوں کو کائنات کے ریاضیاتی اصول سکھا کر ٹیکنالوجی کی راہ پر ڈالا۔ دین انسان کی روح کی تربیت کے لئے ہے، اور یہ انسان کی ارتقائی ضرورت ہے۔ اس کو علم، یا سماجی قانون یا سیاست سے نتھی کرنا ایک غیر عقلی تجربہ ہے۔

ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ عباسی دور کے آخر میں، جب آلِ بویہ اور خلافتِ فاطمیہ کی سیاسی برتری کی وجہ سے شیعہ علما کو کتابیں لکھنے کا موقع ملا اور ان میں سے کچھ نے یونانی اور ہندوستانی علوم میں مہارت حاصل کر کے سائنسی کام کیا، تو ان علما نے کبھی علم کو دین سے نہیں جوڑا۔ ابنِ سینا نے اپنی کتب میں کبھی اپنے علم کو قرآن و حدیث سے منسوب نہ کیا بلکہ صاف صاف یونانی مصادر کا ذکر کیا۔ اسی طرح معروف سنی عالم ابن خلدون کی سماجی علوم کی کتاب ’’المقدمہ‘‘ خالص عقلی بنیادوں پر قائم ہے۔

دینی فنون کے ماہرین بھی دین کو علم کا ماخذ نہیں مانتے تھے، نہ ہی دین اور سیاست یا دین اور سماجی قانون کو گڈ مڈ کرتے۔ معروف شیعہ عالم شیخ صدوق نے اپنی کتاب ’’الاعتقادات‘‘ میں ’طب کے متعلق وارد شدہ احادیث کے بارے میں عقیدہ‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

’’اس سلسلے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کی چند قسمیں ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جو صرف مکہ اور مدینہ کی آب و ہوا کے مطابق ہیں، لہٰذا ان کو دوسرے ممالک کے ماحول میں اپنانا درست نہیں ہے۔ بعض ایسی ہیں جنہیں کسی خاص شخص کے لئے بیان کیا گیا ہے، اور وہ اسی شخص کے لئے تھیں۔ بعض احادیث ایسی ہیں جنہیں مخالفین نے دھوکے سے کتابوں میں داخل کر دیا ہے تاکہ عام لوگوں کی نظر میں مذہب بدنام ہو جائے۔ کچھ حدیثیں ایسی ہیں جن کو یاد رکھنے میں راوی سے غلطی ہو گئی اور کچھ ایسی ہیں جن کا صرف کچھ حصہ ہی راویوں کو یاد رہا‘‘۔

یہ کتاب آج سے ایک ہزار سال قبل لکھی گئی ہے اور اس زمانے کے شیعہ علما کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طبِ اسلامی کے نام پر جو مواد اسلامی کتب میں پایا جاتا تھا وہ اس زمانے کی دانش کے مطابق بھی علمی معیارات پر پورا نہیں اترتا تھا، اور اس زمانے کے مغربی علوم، یعنی طبِ یونانی، کو ہی ترجیح دی جاتی تھی۔

علم، سیاست اور سماجی قانون ’سیکولر انسانی ورثہ‘ ہیں۔ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ شیعہ عوام جتنا جلد جدید آیت الله صاحبان کے اس فتنے کو سمجھ جائیں اتنا بہتر ہو گا۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔