اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد تیزی سے بدلتے تناظر نے اسلام آباد اور لاہور میں بیک وقت کئی ممکنہ سیاسی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے۔ یہ تبدیلیاں اس حوالے سے روزانہ رونما ہونے والے واقعات سے بڑھ کر ہیں۔ جیسا کہ جولیس سیزر نے جنوری 49 بی سی میں روبیکن نہرعبور کرنے پرکہا تھا: 'ڈائی از کاسٹ' یعنی 'معاملہ اٹل ہے'۔اس تمام معاملے کا محور حزب اختلاف کا یہ اعتماد ہے کہ 'گیم پلان' ناکامی سے دوچار نہیں ہوسکتا، یا ایک پیچیدہ سیاسی منظرنامے میں اس سوچ کے قریب قریب ضرور ہے۔
منگل کو شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کی جانب سے کیا جانے والا باقاعدہ اعلان ایک طویل اور تھکا دینے والے عمل کا حاصل تھا، کہ جس میں یقین دہانیاں، وعدے، رضامندیاں، مذاکرات، سمجھوتے اور ساتھ ہی ساتھ مستقبل کے حوالے سے ایک محتاط امید شامل تھی۔
اس سارے عمل کے دوران معلومات کو پھیلنے سے سختی سے روکا گیا اور اگر کچھ برآمد ہوا بھی تو وہ غیر مکمل جزیات یا سیاق و سباق سے ہٹ کر اطلاعات تھیں۔ مکمل تصویر اور اس سے متعلق معلومات صرف مٹھی بھر افراد تک محدود تھیں۔
البتہ ریڈ زون سے واقفیت رکھنے والوں سے گہری، پرمغز گفتگو نے اس تصویر کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی ہے، اور یہ بھی کہ آنے والے دنوں میں سب کچھ منصوبے کے تحت ہونے کی صورت میں اس تصویر کا ظہور کس شکل میں ہوگا۔
اس حوالے سے بات ایک بڑے 'اگر' پر آکر رک جاتی ہے کیونکہ کھیل تو دونوں اطراف سے کھیلا جاتا ہے اور حکومت نے ابھی جواب دینا باقی ہے۔ لیکن حکومت کے جواب یا جوابات کو اس وسیع تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے کہ جس جانب پاکستانی سیاست اگلے چند ہفتوں یا مہینوں میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک عدم اعتماد قسمت کے بڑے سے چکرے کی فقط ایک کڑی ہے، جسے آہستگی سے مگر سوچ سمجھ کر اور دانستہ حرکت دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس عمل کے پیچھے دو بڑی وجوہات خاصے وقت سے عمل پیرا ہیں۔
ان میں سے پہلی وجہ وزیراعظم کی جانب سے پنجاب اور اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کی جانے والی 'مس مینجمنٹ' ہے۔ ان دونوں وجوہات نے ایک خاص عمل کا مل کر آغاز کر دیا ہے جو اب عروج کی طرف گامزن ہے۔
قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے لیے ابھی اور اس ماہ کے اختتام تک پیش آنے والے واقعات یا تو سیاسی منظر نامے کی نئی اسٹریٹجک صف بندی کی تائید کریں گے یا پھر تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی صورت میں کسی غیر متوقع نتیجہ کی صورت میں برآمد ہوں گے۔
فی الحال متوقع نتائج کا ظہور طے شدہ معاملے کی صورت میں ہی ہو رہا ہے۔ پنجاب کے اندر موجود رنجشوں کو حکمران جماعت کے اندر دراڑ کی صورت میں رونما ہونا ہی تھا۔
وزیراعظم کے دوستوں، اتحادیوں اور بہی خواہوں نے انہیں بار بار اور بارہا کہا اور منت تک کی کہ وزیراعلیٰ کو تبدیل کیا جائے اور صوبے میں تیزی سے پیدا ہوتے سیاسی اور حکومتی بحران پر قابو پایا جائے، لیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔
اگر وہ صحیح وقت پر عمل کر گزرتے تو ممکنہ طور پر جہانگر ترین گروپ نامی کسی گروپ کا وجود نہ ہوتا۔ اور اگر ہوتا بھی تو اس طاقت اور اثر پذیری کی تلاش میں ہی مصروف رہتا کہ جو اس کے پاس آج موجود ہے۔ یہ طاقتور، مضبوط اور جارح گروہ تحریک انصاف کی قیادت کے صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے میں ناکامی کا براہ راست نتیجہ ہے۔
جن لوگوں کا خیال ہے کہ اس گروہ کو اب ترقیاتی فنڈز یا عہدوں کے ذریعے رام کیا جا سکتا ہے، وہ صورتحال کی مکمل تصویر دیکھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اس حوالے سے ہونے والی تصویر کشی کو بھی نہیں دیکھ پا رہے کہ ایمپائر کا غیر جانبدار ہونا یکایک نہیں، بلکہ اس کا سبب جڑواں شہروں کے درمیان لمحہ بہ لمحہ وسیع تر ہوتی خلیج ہے۔
اس صورتحال سے مکمل طور پر بچا جا سکتا تھا۔ لیکن غرور اور گھمنڈ جب انسان پر حاوی ہوتے ہیں تو اسے ایک بڑی قیمت ادا کرنے ہر مجبور کر دیتے ہیں۔ لیکن کینوس پر ہلکے پھلکے اسٹروک اس وقت تک مکمل تصویر نہیں بنا پاتے جب تک انہیں بنانے والا کوئی ماہر ہاتھ نہ ہو۔
لیکن اکثر اوقات اس ماہر ہاتھ کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کرے۔ آج کے تناظر میں 'عدم' سے مراد دونوں جانب سے یہی لی جاتی ہے کہ جو ہونے جا رہا ہے اسے ہونے دیا جائے۔ لہذا اپوزیشن نے تحریک انصاف کے ناراض یا مایوس یا دونوں کیفیات کا شکار ممبران قومی اسمبلی کو بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
یہ وہ افراد تھے جن کا غصہ یا مایوسی طاقتور حلقوں کے دبائو کے خطرے کے پیش نظر کہیں اندر ہی مقید تھا۔ ان کے پاس کوئی موقع نہیں تھا، اور پر یہ موقع انہیں مل گیا۔ یا کم ازکم ان کا سمجھنا ہے کہ ایسا ہو چکا ہے۔ گذشتہ چند ہفتے، بلکہ ماہ یوں گذرے کہ ان ارکان نے اپوزیشن کے حوالے سے اپنے اراداے کو عملی میدان میں جانچا اور اس دوران ایک نظر اپنے فون پر رکھی کہ بج نہ اٹھے۔ جب ایسا نہ ہوا تو وہ اتنے پراعتماد ضرور ہو گئے کہ شجر ممنوعہ کو ذرا سا چکھ لیں۔
اور یہ پھل انہیں میٹھا معلوم ہوا۔ پنجاب میں ایک کامیاب ٹکٹ کا حصول۔ انہیں یہ انتخاب کرنا تھا۔ لیکن حقیقتا نہیں۔ اس انتخاب میں دوسروں کا انتخاب شامل تھا کہ وہ ان کے انتخاب میں آڑے نہیں آئے۔ اور پھر معاملہ شدت پکڑنے لگا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب حزب اختلاف کے کلیدی رہنمائوں کو اندازہ ہوا کہ وزیراعظم کی زرہ میں ایک ایسی جگہ موجود ہے کہ جس کے آر پار وہ وار کرسکتے ہیں۔
لندن میں مقم فرد کو بھی اندازہ ہوگیا کہ بدلتے حالات ان سے ان کی پوزیشن میں نرمی اور کسی متذبذب معشوق کی مانند لچک دکھانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
تو حلیفوں کا کیا معاملہ رہا؟ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے سخت محنت کی لیکن وہ جہانگیرخان ترین گروپ کو نہ دیکھ پائی۔ ایم کیوایم نے وزیراعظم کا کراچی میں واقع ہیڈ کوارٹر میں استقبال کیا اور کھلی حمایت کا یقین دلانے سے پرہیز کرتے ہوئے پھیکی چائے پیش کی۔
'باپ' یعنی 'بی اے پی' پراسرار طور پرخاموش ہے جبکہ رنجیدہ جی ڈی اے ایک کونے میں موجود ہے۔ لیکن بات کچھ یوں ہے: اگران معاملات کا ایک خاص سلسلہ موجود ہے تو حلیف کیسے اسے اپنی موجودگی سے آراستہ کرنے سے احتراز کرسکتے ہیں؟ یہ بلاشبہ ایک کڑا امتحان ہے۔
لیکن کیا وہ غیرجانبدار ہیں؟ ایسا نہیں۔ ریڈ زون کے ذرائع کے انکشاف کے مطابق ایم کیوایم متلاشی نگاہوں سے دوربہت دوراپوزیشن سے مشورہ کرتی رہی۔ 'باپ' بھی بہت گہرے انداز میں اپوزیشن سے تعلق برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت کی مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی، جس کے بعد یہ جماعت مزید پھرتی کے لیے متحرک ہے۔ حلیف جانتے ہیں کہ معاملہ چل رہا ہے، ایسے فیصلوں کی روشنی میں جو ان کے 'پے گریڈ' سے کہیں بالا ہیں۔
تو کیا پی ٹی آئی کی حکومت تباہی سے دوچار ہوچکی؟ ابھی نہیں۔ اس تمام عمل کے قدرتی عنصراورسیاسی حرکیات نے حکمران جماعت کو قدرتی ہی انداز میں جواب دینے کا موقع فراہم کیا ہے، وہ بھی ریاستی طاقت کے ساتھ ۔ اگر پی ٹی آئی دوسروں پرانحار کا شکنجہ توڑسکے اور اس سیاسی سمجھداری کا مظاہرہ کرسکے جس سے وہ پچھلے دو برس میں قاصر رہی، تو وہ اب بھی اس لہر کا رخ موڑ سکتی ہے جو وقت کےساتھ ساتھ بلند ہوتی جارہی ہے۔ خان صاحب، یہ مشن مشکل ضرور لیکن 'مشن امپوسیبل' قطعی نہیں ہے۔