ڈاکٹر مبشر حسن کو بچھڑے 4 برس بیت گئے۔ ان کے ساتھ گزارا وہ وقت آج بھی دل میں تروتازہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے بہت گہرا تعلق تھا۔ پہلے بچپن میں والدین کے ساتھ ان کے گھر جاتے تھے۔ میرے والدین دونوں ڈاکٹر مبشر حسن کے پولنگ ایجنٹ بنے تھے 1970 کے الیکشن میں۔ تب سے ان کے ساتھ ایک تعلق کی ابتدا ہوئی تھی۔ پھر جب وہ وزیر خزانہ بنے تب میرے والد خواجہ جمیل احسان کو نیشنل بینک میں ملازمت دلائی تھی۔ بس ان تعلقات کا سلسلہ تھا جو چل پڑا۔ وہ ہمارے گھر جو فاروق گنج شمالی لاہور میں تھا، وہاں بھی آئے تھے۔ پھر والد صاحب کی وفات کے بعد بھی ان ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ میں اور میری والدہ فریدہ جمیل اکثر ان سے ملنے ان کے گھر جاتے۔ ایک بار وہ ہمارے گلشن راوی والے گھر بھی آئے تھے۔ میں نے کوچہ صحافت میں قدم رکھا تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ بہت زیادہ ہو گیا۔
ڈاکٹر مبشر حسن کو میں نے ہمشہ ایک سیاست دان سے بہت بڑھ کر پایا بلکہ میں تو ان کو کبھی سیاست دان کہتا ہی نہیں وہ تو سماجی سائنس دان تھے عمرانیات کے ماہر تھے سماج سیوک بلکہ سماج کو سدھارنے والوں میں سے تھے۔ ساری زندگی ایک الیکشن لڑا وہ جیت گئے۔ بتاتے ہیں کہ میرا صرف 20 ہزار خرچہ ہوا تھا۔ وہ وقت ذوالفقار علی بھٹو کے عروج کا تھا۔ مجھے انتخابی مہم کے دوران کبھی کوئی انتخابی دفتر کھولنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ عوام خود ہی دفتر بنا کر مجھے اطلاع کر دیتے تھے۔
جیسا کہ سطور بالا میں لکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک سماجی سائنس دان تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے صرف ایک بار الیکشن لڑا، جیت کر وزیر خزانہ بن گئے پھر 3 سال بعد وزارت سے استعفیٰ دے دیا پلٹ کر دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں قدم نہیں رکھا جبکہ بے شمار دفعہ دعوت اقتدار بھی ملی تو مسکرا کر کہتے، دیکھو اقتدار میں آنا اور بات ہوتی ہے، طاقت میں آنا اور بات ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اقتدار میں تو آ جاتی ہیں مگر ان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے۔ یہی بات میں اکثر بھٹو صاحب سے کہتا تھا۔ ایک راشی آفیسر کو میں نے بطور وزیر خزانہ معطل کر دیا مگر عدالت نے اسے بحال کر دیا۔ اب بتاؤ کہ اختیارات کہاں گئے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ویسے بھی پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کہیں اور ہیں۔ طاقت وزیر اعظم یا اس کی کابینہ کے پاس نہیں ہے بلکہ طاقت کے اصل مراکز ملٹری اور سول بیوروکریسی ہیں جو سیاست کاروں کو کٹھ پتلیاں بنا کر نچاتے ہیں۔ یہ قومی و صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ کے اراکین، صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزیر، گورنر؛ سب بے اختیار ہیں اور کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے طاقت کے اصل مراکز کی طرف دیکھتے ہیں۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے ایک پورا تھیسس لکھا تھا جو پاکستان کے سیاسی نظام پر تیار کر رکھا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ دو بار کام کیا، ایک بار 3 سال تک، ایک بار 16 ماہ تک۔ پہلے ان کے ساتھ بطور محقق ریسرچر کام کرتا تھا جو کتابیں اور مضامین لکھتے تھے اس کی ریسرچ میں کرتا تھا۔ دوسری بار ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ چلاتا تھا۔ وہ چند جملے بولتے تھے میں ٹائپ کر کے ان کے فیس بک پر ڈال دیتا تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن ایک تہذیب کا نام تھے۔ پانی پت سے ان کا تعلق تھا مگر آدھی صدی لاہور میں گزارنے کے باوجود بھی پانی پت ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اسی شین قاف کے ساتھ اردو زبان میں بات کرتے تھے۔ کبھی اپنی زبان کو خراب نہیں کیا۔ اپنے اوپر پانی پت کے علاوہ کوئی دوسرا رنگ چڑھنے نہیں دیا۔ میر تقی میر، مزرا غالب کے اشعار ان کو زبانی یاد تھے۔ اردو زبان ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ میر کی شاعری پر ایک کتاب بھی لکھی۔ پھر اس کو جیبی سائز میں شائع کرایا تا کہ ہر وقت ساتھ رکھی جا سکے۔ غالب کے اشعار کو بہت خوبصورت انداز سے پڑھتے تھے۔ اسی طرح دوسرے کلاسیکی اردو شاعروں کو ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ گزری شامیں جہاں عدنان عادل (ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب سے میری قربت اور بڑھی) خالد مجبوب لڈو کامران اسلام تو وہاں ہوتے تھے۔ پھر اکثر آئی اے رحمان اور حسن نقی بھی آ جایا کرتے تھے۔
فرخ سہیل گوئندی نے ڈاکٹر صاحب کا ایک طویل یادگار انٹرویو بھی کیا ویڈیو ریکارڈنگ کی تھی، مجھے یاد ہے غنوہ بھٹو صاحبہ ان کے گھر ٹھہری ہوئی تھیں تو روزنامہ دنیا کے لئے سینئر صحافی یاسین ملک اور میری شریک حیات گونیلا حسنین نے میری وساطت سے غنوہ بھٹو کا انٹرویو کیا تھا۔ اس وقت وہ کسی کو انٹرویو نہیں دے رہی تھیں مگر میری درخواست پر وہ تیار ہو گئی تھیں۔
کبھی کبھی تو دل کرتا ہے ایک کتاب ڈاکٹر مبشر حسن پر لکھوں، کیسے وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی تربیت بھی کیا کرتے تھے جن لوگوں نے بھی ان کے ساتھ وقت گزارا ہے وہ تہذیب و تمدن سیکھ کر ہی وہاں سے نکلے تھے۔ ڈاکٹر صاحب پاک بھارت تعلقات میں امن کے خواہاں تھے۔ ایک تنظیم پاک انڈیا فورم امن و جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی جو ان کے فوت ہونے کے بعد غیر فعال ہو چکی ہے۔