پاکستان واحد وہ ملک ہے جہاں قیام کے ساتھ ہی سازشوں نے بھی جنم لیا اور ہماری سیاسی تاریخ اتنی بے رحم ہے کہ کبھی بھی اس میں ہونے والی سازشوں کا پردہ چاک نہیں ہوا بلکہ جس نے پردہ چاک کرنے کی کوشش کی اسے چاک کر دیا گیا۔ یوں تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ایمبولینس کی تاریخ بھی انتہائی غور طلب ہے مگر اس میں آج بھی تاریخ پاکستان یا عالمی مؤرخین کے مقابلے پاکستان میں مطالعہ پاکستان میں پڑھائی جانے والی کہانی ہم نے بحیثیت قوم زیادہ رچا بسا لی ہے مگر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کو دنیا کی ہر کتاب میں تسلیم کیا گیا ہے۔
اب سوال کے ساتھ ساتھ رونے کا مقام یہ ہے کہ ان کو قتل کرنے کی سازش کسی انگریز یا ہندو نے نہیں بلکہ ملک میں موجود افراد نے ہی کی تھی۔ اس حوالے سے یوں تو عالمی سطح پر بھی بے تحاشہ تحقیقاتی رپورٹس شائع ہوئیں مگر بطور پاکستانی ہمیں جس بات پر اعتماد یا یقین زیادہ ہو گا وہ ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ رعنا لیاقت کا مؤقف ہو گا کیونکہ وہ ان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں بھی رہیں اور سیاسی معاملات میں بھی پیش پیش رہیں کیونکہ بعد از قتل لیاقت علی خان وہ روم میں پاکستان کی سفیر بھی رہیں اور اہم انکشافات بھی کیے جو کہ آج بھی کتب میں موجود ہیں۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد بیگم رعنا لیاقت جس افسردہ حال میں تھیں اس بارے کتاب "گئے دنوں کے سورج" میں فارن آفس کے ایک جونیئر آفیسر جو کہ رعنا لیاقت کے ساتھ روم میں سفارتخانے میں تھرڈ سیکرٹری تھے نے بتایا کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان ان دنوں روم میں پاکستان کی سفیر تھیں، حکومت نے خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ان کے خاندان کے لئے 5 ہزار روپے وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ یہ رقم چونکہ تھوڑی تھی تو بیگم رعنا لیاقت کو روم میں سفیر لگا دیا گیا۔ بیگم رعناکو "پینے" کی عادت تھی۔ بیگم صاحبہ کے جگر پر ورم آ چکا تھا لہٰذا ڈاکٹروں نے انہیں "مشروب مغرب" سے پرہیز کا پابند بنا دیا تھا۔
وہ ہر شام اپنی بالکونی میں میز سجا کر بیٹھ جاتیں۔ ایک روز فائل پر دستخط کے لئے جب میں ان کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے میز پر اپنے سامنے بٹھا لیا اور پینے کے لئے کہا۔ جب میں نے انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہاری پروفیشنل ڈیوٹی میں شامل ہے لہٰذا میں ساتھ بیٹھا پینے لگا۔ یہ معمول بنا اور وہ آہستہ آہستہ جب ہمیں مدہوش پاتیں تو ہم سے اپنے خاوند کے قاتلوں کا ذکر شروع کر دیتیں۔ آتشیں رنگت کے بوڑھے سفارتکار نے ہاتھ کا چھجا چہرے سے ہٹا کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولا، وہ غلام محمد کو اپنے خاوند کا قاتل سمجھتی تھیں۔ ان کا خیال تھا اسکندر مرزا، مشتاق گورمانی اور ایوب خان بھی اس سازش میں برابر کے شریک تھے۔
"وہ اکثربتا تیں 1950 کے آخر میں سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا جی ایچ کیو میں جنرل ایوب خان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں آئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ موسم سرما کے آغاز کی ایک شام تھی۔ خان صاحب ان دونوں کے ہمراہ سٹڈی میں چلے گئے۔ جہاں وہ دو گھنٹے تک پتہ نہیں کیا باتیں کرتے رہے لیکن جب وہ لوگ واپس چلے گئے تو میں نے اپنے میاں کو پریشان پایا۔ وہ رات گئے تک قہوہ پیتے رہے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر میرا دل خوف سے لرزتا رہا لیکن میرے اندر خان صاحب سے سوال کا حوصلہ نہیں تھا کیونکہ اس قسم کی کیفیت میں وہ مزید گہر سے ہو جاتے تھے۔ لیاقت علی خان نے نماز فجر کے وقت مجھے بتایا کہ فوج کے کچھ لوگ ہماری فارن پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں ہم روس کو دوست بنالیں، یہ لوگ ہمارے مسائل نہیں سمجھتے، بہر حال سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ٹھیک تین ماہ بعد ہمارے نئے آرمی چیف نے جنرل اکبر سمیت دوسرے ایسے فوجی اور سول لوگ وزیر اعظم کو پیش کر دیے جو ملک میں اشتراکی فوجی حکومت لانے کے لئے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کر رہے تھے۔ اسکندر مرزا نے مجرموں کی فائل وزیر اعظم کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا، 'دیکھ لیجئے ہمارا انتخاب غلط ثابت نہیں ہوا'۔ خان صاحب نے فائل پکڑتے ہوئے میری طرف دیکھا تو میں بے اختیار مسکرا اٹھی۔
چند روز بعد ان مجرموں کے خلاف روالپنڈی سازش کیس کے تحت مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ میں نے لیاقت علی خان کی ذات میں بھی بعض تبد یلیاں محسوس کیں۔ وہ رات دیر دیر تک جاگتے رہتے، قہوہ پیتے رہتے۔ بعض اوقات پوری پوری رات نوافل پڑھتے رہتے۔ انہی دنوں سی آئی ڈی کا چیف بھی کثرت سے وزیراعظم ہاؤس آتا رہتا تھا۔ 1951 کی گرمیوں کی ایک شام کو لیاقت علی خان جب دفتر سے واپس آئے تو مجھے کہا تم میرے پاس بیٹھو میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ لوگ مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ ان کے خلاف کون کیا سازش کر رہا ہے؟ کون قاتلوں سے بات چیت کر رہا ہے؟ سازشیوں کے ساتھ کون کون شریک ہے؟ وہ ہر بات کے بعد غلام محمد اور گور مانی کا ذکر کرتے تھے۔ آخر میں انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ان کابینہ کے اجلاس میں غلام محمد اور گورمانی کو خوب جھاڑ پلائی ہے جب کہ انہوں (غلام محمد اور گورمانی) نے مجھ سے صفائی کے لئے پھر مہلت طلب کی ہے جو میں نے دے دی ہے لیکن میں انہیں جلد ہی فارغ کر دوں گا۔
یہ تو وہ حالات تھے جو لیاقت علی خان کے ساتھ روالپنڈی سازش کیس سے قبل پیش آتے رہے۔ دلچسب بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک کی بنیاد پڑے ابھی ایک عشرہ بھی نہ گزرا تھا کہ یہاں اقتدار کی لالچ اور ہوس نے جو سازش کروائی جو اس کے بعد تواتر سے چلتی آئی وہ راولپنڈی سازش کیس تھا۔ اگر یوں کہیں کہ ضیا کا مارشل لاء، مشرف کا آمریت کا دور اور جمہوری حکومتوں کو پاؤں تلے روندنے کی بنیاد اس روالپنڈی سازش کے آفٹر شاکس ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ اس سازش کے کرداروں اور مہروں کی سازشیں کسی اور شکل میں برقرار رہیں جس کا تذکرہ کرتے بیگم رعنا لیاقت نے آگے کے حالات بتائے ہیں۔
بیگم رعنا کہتی ہیں کہ 16 اکتوبر کی صبح جب لیاقت علی خان راولپنڈی جانے کے لئے تیار ہوئے تو بڑے خوش تھے۔ مجھ سے مخاطب ہو کر کہا میں آج قوم کو اپنا راز دار بنا کر سارے دکھوں سے آزاد ہو جاؤں گا۔ میں ان سب کے نام دے دوں گا جو ملک کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں۔ تم میرے لئے دعا کرنا۔ وہ میری ان سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔غلام محمد گورنر جنرل بن گیا۔ ان کے حواریوں کو بڑے بڑے عہدے مل گئے۔ قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے ایک انکوائری کمیشن بنا دیا گیا اور بس۔ جب وہ شہید ہوئے تو پورے ملک میں ہمارے لئے سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ رقم وہی تھی جو مرحوم کی اچکن سے نکلی تھی۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے کہیں نوکری کر لوں۔ انہی دنوں اسکندر مرزا میرے پاس آئے تو میں ان سے بڑی سختی سے پیش آئی، کیونکہ وہ بھی لیاقت علی کی شہادت کے بعد موقع سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ وہ بڑے تحمل سے میری بات سنتے رہے اور آخر میں مجھے قائل کر کے غلام محمد کے پاس لے گئے۔ وہ بڑی فرعونیت سے مجھے ملے اور کہنے لگے، مجھے پتہ ہے آپ کے پاس سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کھانے کے لئے کوئی رقم نہیں۔ لیکن میں آپ کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔
بیگم رعنا لیاقت کو سفیر بنانے کے پیچھے بھی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کو ملک سے دور رکھا جائے تاکہ وہ مزید یہاں تفتیش و تحقیق میں نہ گھسیں وگرنہ ان کو بھی واردات کا نشان سمجھ کر شاید راستے سے ہٹا دیا جاتا۔ اس بات کا تذکرہ کرتے رعنا لیاقت اس بات کا پس منظر بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ایک روز قتل کیس کی تفتیش کرنے والے اعزاز الدین (اس وقت کے آئی جی سپیشل برانچ) کراچی میرے گھر آئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ قاتل تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر وہ چند دن مزید رہ گئے تو یہ راز راز نہیں رہے گا۔ میں نے ان سے تفصیلات پوچھیں تو انہوں نے بتایا کہ سید اکبر جو کہ لیاقت علی خان کا قاتل تھا اس کو 15 اکتوبر کو ایک سی آئی ڈی کا اہلکار ایبٹ آباد سے راولپنڈی لایا تھا۔ ہوٹل کے رجسٹر میں اس کا نام بھی درج ہے۔ اس کو اس کام کے 15 ہزار روپے دیے گئے تھے۔ 10 ہزار اس کے گھر اور تین ہزار اس کی جیب سے برآمد ہوئے ہیں جب کہ باقی 2 ہزار کا اب تک سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ وہ اور اس کا بیٹا سب سے پہلے پنڈال میں داخل ہوئے اور پہلی قطار میں سٹیج کے بالکل سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ اس وقت اس سارے پنڈال کو پولیس اور سی آئی ڈی کے اہلکاروں نے گھیر رکھا تھا پھر اس مشکوک حرکت پر اس سے پوچھ پڑتال کیوں نہیں کی گئی؟ جلسہ شروع ہونے سے پہلے جب سارے پنڈال کی تلاشی لی گئی تو پولیس نے اس کی جیب سے پستول برآمد کیوں نہیں کیا؟ خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جب سید اکبر کے قریب بیٹھے قصاب نے اسے دبوچ لیا تو پھرشاہ محمد اے ایس آئی نے اسے گرفتار کرنے کی بجائے اسے قتل کیوں کیا؟ مشتاق گورمانی راولپنڈی میں ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے جلسے میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ غلام محمد نے گورنر جنرل بنتے ہی آئی جی پنجاب قربان علی خان کو گورنر بلوچستان کیوں بنا دیا؟ اور پھر موت ہر وقت سائے کی طرح میرا پیچھا کیوں کرتی رہتی ہے؟ روز روڈ پر میری گاڑی کا ایکسیڈنٹ کیوں ہو جاتا ہے؟ سارے سوالوں کے جواب ہیں/ بس مجھے ایک ثبوت کی تلاش ہے جو چند روز تک ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں اپنی رپورٹ اعلیٰ حکام کی بجائے اخبارات کو پیش کروں گا تاکہ مجرموں کو سزا ملنے سے قبل ہی رپورٹ تاریخ کا حصہ بن جائے۔ اعزاز الدین سے اس ملاقات کے بعد میرے خدشات حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔ مجھے اپنے خاوند کے قاتلوں کا یقین ہو گیا اور میں بڑی شدت سے اعزاز الدین کی رپورٹ کا انتظار کر نے لگی لیکن چند روز بعد جب اس کی رپورٹ مکمل ہو گئی تو اس طیارے کو اعزاز الدین اور اس کی رپورٹ سمیت بم سے اڑا دیا گیا۔ یوں میری آخری امید بھی دم توڑ گئی۔
1952 کے شروع میں اسکندر مرزا میرے پاس غلام محمد کا پیغام لے کر آئے کہ اگر آپ پسند کریں تو آپ کو سفیر بنا کر بیرون ملک بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ میں نے انکار کر دیا لیکن اسکندر مرزا بولے کہ آپ اور آپ کے بچوں کے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ لوگ واردات کا ہر نشان مٹا دینا چاہتے ہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے کوئی شرمندگی نہیں کہ میں ڈر گئی اور میں نے ان کی یہ آفر قبول کر لی۔
عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@