سینئر صحافی رئوف کلاسرا نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے رواں سال ستمبر یا اکتوبر میں نئے الیکشن کرانے کا کہہ دیا گیا ہے لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت اس معاملے پر شدید مخمصے کا شکار ہے۔ سیاسی جوا کھیلنا مہنگا پڑا۔ شریفوں سامنے اب کیا راستہ بچا ہے؟
اپنے ایک وی لاگ میں رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف ان دنوں لندن میں اپنی کابینہ سمیت موجود ہیں۔ ان کی مسلم لیگ ن کے قائد کے ساتھ بڑی اہم ملاقاتیں جاری ہیں۔ ان ملاقاتوں میں آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل اور انتخابات کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ درحقیقت ن لیگ اس وقت شدید مخمصے میں ہے کہ حکومت کی مدت پوری کی جائے یا جلد الیکشن کرائے جائیں؟
رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ گذشتہ رات زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان طویل ٹیلی فونک مشاورت ہوئی اور الیکشن کے اہم معاملے پر بات چیت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ خبریں ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ اس موجودہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کا حل یہی ہے کہ جلد الیکشن کی جانب جایا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ 15 ستمبر سے 15 اکتوبر کے درمیان الیکشن کی تاریخ رکھ لی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ نومبر میں نیا آرمی چیف کون آتا ہے کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ یہ چیز باور کرا چکے ہیں کہ وہ اس عہدے پر رہنے کیلئے مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔ اب آرمی چیف کی دوڑ لیفٹینٹ جنرل فیض حمید اور ان کے اوپر موجود دیگر تین سینئر جنرلز کے درمیان ہے۔