آرمی چیف اور ایکس سروس مین کے درمیان ملاقات کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس میں کوئی تلخ باتیں نہیں ہوئیں۔ چیزوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ملاقات کے دوران کوئی سخت زبان استعمال نہیں کی گئی اور نہ کسی نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ ہیں۔ یہ انکشافات سینیئر صحافی تنزیلہ مظہر نے کیے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں ملک کی صورتحال پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے تنزیلہ مظہر نے کہا کہ پاک فوج کے بارے میں جو بھی بات کی جائے لیکن وہاں بھی انسان موجود ہیں جن کے اپنے جذبات اور احساسات ہیں۔ ادارے کے اندر ہو سکتا ہے کہ نظریاتی تقسیم ہو لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی موجود ہوں گے جو سمجھتے ہوں گے کہ جنرل فیض حمید کو سنگل آئوٹ نہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ زرداری صاحب نے نادانستہ طور پر جنرل فیض حمید کے بارے میں بات کہہ دی لیکن دماغ میں کہیں نہ کہیں تو ان کے یہ چل رہا ہوگا کہ ان کو کھڈے لائن کیا گیا ہے۔ وہ بڑے سوچ سمجھ کر بات کرنے والے سیاستدان ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان کی زبان پھسل گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اس سیاسی ماحول میں نادانستگی والی باتوں سے پرہیز کریں۔ جب ایک ادارہ بھی بار بار ایسی باتیں کر رہا ہے کہ اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ سیاستدان ہمیشہ کہتے رہے کہ اسٹیبشلمنٹ خود کو سیاست سے الگ کرلے، اب وہ ان کی بات مان کہہ رہے ہیں۔ اس کی وجوہات جو بھی ہوں، فوج کے اس اقدام کو آمین کہنا چاہیے۔
پروگرام کے دوران اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی اختلاف کو ہوا دینا اس موجودہ حکومت کے حق میں نہیں ہوگا کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ موجودہ رجیم چینج کسی جمہوری عمل کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ اس بارے میں بڑی ڈس انفارمیشن ہے۔ واٹس ایپ گروپوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 90 فیصد ریٹائرڈ فوجی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ کچھ روز قبل کسی نے لکھا تھا کہ 30 لاکھ ریٹائرڈ فوجی خاندان عمران خان کے پکے سپورٹرز ہیں۔ میں نے اس پر کچھ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ایکس سروس مین کی تعداد جو اس وقت پینشن وصول کرتی ہے، ان کی تعداد 12 لاکھ سے بھی کم ہے۔
تنزیلہ مظہر کا کہنا تھا کہ ان میں سے بھی برگیڈیئر یا ان سے ااوپر کی سطح کے ریٹائرڈ افسران ہی ہیں جنہیں ہم نے تجزیہ کار بنا دیا۔ انہی لوگوں کا مسئلہ ہے سیاست، باقی نچلے درجے کے ریٹائرڈ افسران تو نوکریاں، ملازمتیں ہی کر رہے ہیں۔ میں زیادہ بات نہیں کرتی کیونکہ پھر لوگ ناراض ہوں گے۔ لیکن میں یہ بتا سکتی ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے کہ اس ملاقات میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کوئی جارحانہ گفتگو نہیں ہوئی۔ یہ بھی سفید جھوٹ ہے کہ وہاں 99 فیصد افراد عمران خان کے ساتھ تھی اور صرف ایک فیصد نہیں تھے۔ نہیں۔ بات چیت ہوئی اور بہت ہی معمول کے انداز میں۔ اور یہ میں آپ کو ایک ایسے صاحب سے لی ہوئی خبر دے رہی ہوں جو خود اس ملاقات میں موجود تھے۔
آئی ایس پی آر کے اہم بیان پر بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے دو انتہائی اہم پریس ریلیز جاری کی گئیں جن میں سے ایک گذشتہ روز آصف زرداری کے بیان کا ردعمل تھا جبکہ دوسری آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے تھی۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے واضح کر دیا گیا ہے کہ پشاور کور کوئی کھڈے لائن جگہ نہیں بلکہ اس کی انتہائی اہمیت ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اس کور کی بڑی قربانیاں ہیں اور اپنے کام میں ماہر اور پروفیشنل سولجر کو ہی یہاں تعینات کیا جاتا ہے۔ تاہم ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ پشاور کور جتنی بھی اہمیت کی حامل کیوں نہ ہو، ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے زیادہ اہم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بات یہ ہے کہ صرف پشاور کور نہیں بلکہ پاک فوج کی تمام کورز کی انتہائی اہمیت کی حامل ہیں لیکن صرف پشاور کور کا ہی ذکر کیوں کیا جاتا ہے؟ عوام کو تو شاید باقی کور کمانڈرز کے نام تک پتا نہ ہوں لیکن کور کمانڈر پشاور کے بارے میں سب ہی جانتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ادارے کے اندر خود احتسابی کا نظام ہے تو ان کو احتساب کرنا چاہیے کہ باقی دیگر کے مقابلے میں کور کمانڈر پشاور کا تذکرہ کیوں کیا جاتا ہے؟