Get Alerts

آئی ایم ایف سن لے کہ ماضی کی حکومتوں سے کئے معاہدوں کے پابند نہیں ہیں، مولانا فضل الرحمان

آئی ایم ایف سن لے کہ ماضی کی حکومتوں سے کئے معاہدوں کے پابند نہیں ہیں، مولانا فضل الرحمان
جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ جو سبق انہیں پڑھایا وہی ہمیں پڑھایا گیا کہ آئی ایم ایف کی بات نہ مانی تو مشکل ہو جائے گا۔ ہمیں نئے فارمولے کے ساتھ مالیاتی اداروں کو انگیج کرنا ہوگا۔ جو راستہ پچھلی حکومت کو دکھایا وہی ہمیں دکھایا گیا۔ میں نے بریفنگ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ آئی ایم ایف سن لے کہ ماضی کی حکومتوں سے کیے معاہدوں کے پابند نہیں ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کا کراچی پریس کلب میں ''میٹ دی پریس'' سے خطاب میں کہنا تھا کہ ترقی کی طرف کوئی آسان صفر نہیں ہوتا۔ آگے بڑھ کر ہمیں ترقی کی راہیں تلاش کرنی چاہیں۔ گذشتہ تین سالوں میں ہم پیچھے کی طرف آئے ہیں۔ ترقی کا شرح تخمینہ صفر پر چلا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو مطمئن کیسے کر سکتے ہیں؟ بین الاقوامی برادری سے بہتر تعلقات کیسے قائم کرسکتے ہیں؟ ان سب کے لیے مضبوط معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔ 70 سال کے سفر کو ان تین سالوں میں گرا دیا گیا۔ ہم ایک پھر وہی آ کھڑے ہوئے جہاں ستر سال پہلے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے قریبی دوست سعودی عرب ہے جبکہ غیر مسلم دنیا میں پاکستان کا سب سے قریبی دوست چین ہے۔ چین نے 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر لی تھی۔ لیکن پھر چین نے اپنی ہی سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھا لیا۔

پی ڈی ایم سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی معیشت کو قبضے میں لے کر تہذیبی لحاظ سے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ کہتے تھے کہ دنیا کی معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے، جب تک ان کی گائیڈ لائن نہیں اپنائی جائے گی تو ان کی تجوریاں آپ پر نہیں کھلیں گی۔ پشتون بیلٹ میں مذھب کی گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ان کو لایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ادارے آئینی کردار ادا کرنے لگے تو انہیں نیوٹرل اور میر جعفر کہا گیا۔ آئینی راستے سے حکومت گرائی تو اشرافیہ میں کھلبلی مچ گئی۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا دبائو ختم نہیں ہوا، آفٹر شاکس آتے رہیں گے۔ ہمیں ملکی مشکلات کی اصل جڑوں تک پہنچنا ہے۔ کیا ہم آئی ایم ایف کے کہنے پر سبسڈی ختم کردیں؟ ہم مشکل وقت گزار سکتے ہیں مگر عوام کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے۔ جو ماہرین بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر چلتے ہیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اب احتیاط کے ساتھ آگے چلنا ہے۔