عظیم فلسفی کارل پوپر نے سائنس کے مورخین کے بارے میں گلہ کیا تھا کہ وہ بالعموم بہت خراب قاری ہوتے ہیں۔ مجھے اس بات سے صرف اتنا اختلاف ہے کہ بری خواندگی کو سائنس کے مورخین تک محدود کر دینا شاید درست نہ ہو کیونکہ یہ بیماری کافی ہمہ گیر ہے۔ تاریخی متون کو درست پڑھنا شاید اس لیے ممکن نہیں رہتا کہ ہم نے پہلے سے بہت سے تصورات وضع کر رکھے ہوتے ہیں اور جب ان کی روشنی میں متن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کا درست مفہوم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کبھی اندھی عقیدت، کبھی بے جا تعصب اور کبھی عداوت رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں یہ بات ایک سرکاری عقیدے کا درجہ حاصل کر چکی ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک بار نظریہ پاکستان کے عَلم بردار اخبار کے ایڈیٹوریل میں یہ جملہ پڑھنے کا اتفاق ہوا کہ 'پاکستان علامہ اقبال کے تصور اور قائد اعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا'۔ ایک بزرگ کالم نویس نے تو یہ لکھ کر حد ہی کر دی کہ قائد اعظم نے علامہ اقبال کے حکم پر پاکستان بنانے کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ تاریخ میں شاید کوئی اور ایسا واقعہ نہ ہوا ہو جب کسی جماعت کا ایک صوبائی صدر مرکزی صدر کو حکم دے رہا ہو۔ خامہ بگوش کے الفاظ میں یہ تاریخ نویسی نہیں بلکہ ٹلے نویسی ہے۔
میں اس مضمون میں علامہ اقبال کی نثری تحریروں کا جائزہ لے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے تقسیم ہند کا کوئی نظریہ پیش نہیں کیا تھا اور نہ تصور پاکستان کے وہ خالق تھے، کجا یہ کہ تنہا خالق۔ یہ کام اقبال کے بعض الفاظ کو غلط اور من مانے معنی پہنا کر کیا گیا ہے۔ اقبال کے سر پر اس دستار کو سجانے کے کیا اسباب تھے، ان کا بھی کچھ تذکرہ کروں گا۔
علامہ اقبال کی نثر کو شاعری کے تابع کر دیا گیا
علامہ اقبال کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد ان کی تشریح و تفسیر کا کام ان لوگوں نے سنبھال لیا جو قیام پاکستان سے قبل کانگرس اور احرار سے وابستہ تھے۔ انہوں نے اقبال کے چند مخصوص اشعار کا انتخاب کر کے ان کی نثری تحریروں کو یکسر نظرانداز کر دیا یا ان کی من مانی تاویلیں شروع کر دیں۔ بہت چالاکی سے کام لیتے ہوئے اقبال کی نثر کو اس کے شعر کے تابع کر دیا۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ شعر کو علمی اور منطقی دلیل کی جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ رشید احمد صدیقی صاحب نے ایک مرتبہ قوم کی بدمذاقی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ دلیل کی جگہ شعر پڑھ کر ایسا سمجھتے ہیں کہ بڑا علمی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔ اگر علم اور خبر کی بات ہو گی تو نثر میں کہی ہوئی بات کو شعر پر ترجیح حاصل ہو گی۔
خطبہ الہٰ آباد کی معنوی تراش خراش
تصور پاکستان کی بحث میں علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد اور اقبال کے خطوط بنام جناح خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مشمولات کے تجزیہ و تحلیل سے پہلے کچھ دیگر امورکا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد کی کس طرح معنوی تراش خراش کی گئی اس کا سب سے زیادہ عبرت ناک مظاہرہ اقبال کے خطبہ الہٰ آباد میں استعمال ہونے والی ایک ترکیب کے فہم میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اقبال نے جہاں شمال مغربی ہندوستان کو ایک مربوط صوبہ بنانے کے لیے بہت سے سیاسی دلائل دیے اور کہا کہ ہندوؤں کو اس سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہئیے وہاں اس صوبے کے قیام کے حق میں ایک اور دلیل بھی دی ہے۔ فرماتے ہیں:
'میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا۔ اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں، اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ اس سے نا صرف ان کے صحیح معانی کی تجدید ہو سکے گی بلکہ وہ زمانہ حال کی روح سے بھی قریب تر ہو جائیں گے۔ ( خطبہ الہٰ آباد۔ اردو ترجمہ از سید نذیر نیازی)
اس عبارت میں سید نذیر نیازی صاحب نے 'عربی شہنشاہیت' کی ترکیب اقبال کے الفاظ 'عرب امپیریل ازم' کے ترجمے کے طور پر استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے بھی یہی ترکیب استعمال کی ہے مگر جب اقبال 'برٹش امپیریل ازم' کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو ندیم شفیق ملک صاحب اس کا ترجمہ برطانوی سامراج کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے یہ دو متفاوت معنی کس طرح مراد لیے جا سکتے ہیں؟ اقبال نے جب 'عرب امپیریل ازم' کے الفاظ استعمال کیے تو یقیناً وہ ان کے مضمرات سے بھی واقف ہوں گے۔ اقبال نثر لکھ رہے تھے اس لیے شعر کی طرح وزن کی کوئی مجبوری حائل نہ ہو سکتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اقبال نے بے دھیانی میں یہ الفاظ استعمال کر لیے ہوں۔ اس خطبے سے کوئی ایک دہائی پیش تر وہ نکلسن کے نام اپنے خط میں مسلم تاریخ کے متعلق اپنے نکتہ نظر کو واشگاف انداز میں بیان کر چکے تھے:
'مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح جنگ کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے فتوحات بھی کی ہیں۔ مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ سالار ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گر کرتے رہے ہیں لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداً اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔
'اسلام کو جہاں ستانی اور کشور کشائی میں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اور جمہوری اصول نشوونما نہ پا سکے جن کا ذکر قرآن کریم اور احادیث نبویﷺ میں جا بجا آیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے عظیم الشان سلطنت قائم کر لی لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گیرائی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے'۔ (اردو ترجمہ از چراغ حسن حسرت)
درج بالا اقتباس یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اقبال نے وہ لفظ خوب سوچ سمجھ کر استعمال کیا تھا مگر ہماری حساسیت اس لفظ اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور ترجمے میں اس کا دَف مار دیا جاتا ہے۔ خود حسرت صاحب نے جن الفاظ کا یہ ترجمہ 'ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا' کیا ہے اصل میں یہ ہیں ؛they largely re-paganized their political ideals
گویا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ ملوکیت دور جاہلیت کی طرف رجعت کا نام ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں خلافت کے نام پر جس ملوکیت نے رواج پایا تھا، اقبال اس کے سخت خلاف تھے۔ خطبہ الہٰ آباد کے تقریباً 7 برس بعد پنڈت نہرو کے جواب میں اقبال نے اتاترک کے تنسیخِ خلافت کے فیصلے کی ان الفاظ میں تائید کی تھی:
'کیا تنسیخِ خلافت یا مذہب و سلطنت کی علیحدگی منافی اسلام ہے؟ اسلام اپنی اصلی روح کے لحاظ سے شہنشاہیت نہیں ہے۔ اس خلافت کی تنسیخ میں جو بنو امیہ کے زمانہ سے عملًا ایک سلطنت بن گئی تھی، اسلام کی روح اتاترک کے ذریعے کارفرما ہو رہی ہے'۔ (ترجمہ میر حسن الدین)
اسلامک سٹیٹ یا مسلم سٹیٹ؟
خطبہ الہٰ آباد میں ایک اور لفظ کی معنوی تبدیلی بہت دوررس اثرات کی حامل ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے صرف دو جگہ اسلامک کا لفظ استعمال کیا ہے (Islamic principle of solidarity ,Islamic solidarity) لیکن انہوں نے کسی جگہ سٹیٹ یا ریاست کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیا۔ مگر سید نذیر نیازی صاحب نے ترجمے میں جہاں بھی مسلم کا لفظ استعمال ہوا ہے اسے اسلامی سے ترجمہ کیا ہے۔ خطبہ میں ایک ذیلی عنوان ہے: [Muslim India within India] نیازی صاحب نے اور ندیم ملک صاحب نے بھی اس کا ترجمہ کیا ہے؛ 'ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان'۔ جہاں جہاں اقبال نے مسلم سٹیٹ یا سٹیٹس کا لفظ استعمال کیا ہے اسے نیازی صاحب نے اسلامی ریاست یا ریاستوں سے ہی ادا کیا ہے۔ یہی وہ مغالطہ آفرینی ہے جس نے تحریک پاکستان میں راہ پائی اور مسلمانوں کے سیاسی اور دستوری مطالبات کو اسلامی مطالبات بنا دیا۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں مذہبی مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کا یہی مؤقف تھا کہ مسلم لیگ کے مطالبات قومی مطالبات ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں مگر پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد یہی لوگ تھے جنہوں نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے اس لیے اسے اسلامی ریاست بنایا جائے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ مسلم ریاست سے اسلامی ریاست کی طرف سفر خبط معنی کا نتیجہ ہے یا اس میں کچھ نیتوں کے فتور کو بھی دخل ہے؟
اقبال نے اگرچہ کہا تھا:
؎ الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
تاہم کبھی الفاظ بھی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ مفہوم و مطلب ادا کرنے کا ہمارے پاس یہی وسیلہ ہے۔ الفاظ کے درست مفہوم کا تعین نہ کرنے کا نتیجہ یہ مقبول عام تصور ہے کہ علامہ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا تھا۔
ایک متن کو درست طور پر پڑھنا ضرروری ہے تاکہ مصنف کے اصل مدعا کی بازیافت کی جا سکے۔ اس کے ساتھ اختلاف و اتفاق بعد کی بات ہے۔ چنانچہ ہم خطبہ الہٰ آباد کے استدلال کو سمجھنے، متن کی نادرست خواندگی اور استدلال کو نظرانداز کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
علامہ اقبال کا خطبہ کسی شاعر کا لکھا ہوا کوئی ادبی مضون نہیں بلکہ دستوری اور قانونی امور کا بہت اچھا فہم رکھنے والے بیرسٹر اور ایک عملی سیاست دان کا ہندوستان کو درپیش دستوری اور قانونی مسائل کا تجزیہ ہے۔ یہ خطبہ چونکہ مطبوعہ صورت میں موجود ہے اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ اسی سے رجوع کیا جائے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وہ اس میں کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔
مولوی حضرات ایک بات کا بہت ذکر کیا کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو لا تقربوا الصلوٰة پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں اور اس کو مفید مطلب حکم سمجھ لیتے ہیں۔ مولوی صاحبان کی بات کو تو شاید ایک لطیفہ سمجھا جائے مگر اقبال کے ساتھ تو واقعی یہ سلوک کیا گیا ہے کہ یار لوگ ایک جملہ پڑھ کر ہی فرط جذبات میں دھمال ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ پورے خطبے میں انہیں صرف یہ جملہ پسند آیا ہے:
'میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ کم از کم ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مربوط ہندوستانی مسلم ریاست، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، یا اس کے باہر، ہندوستان کے شمال مغربی مسلمانوں کا آخرکار مقدر ہے'۔ (اردو ترجمہ از ڈاکٹر ندیم شفیق ملک۔ علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد 1930۔ ص 111)
اس جملے سے دو اہم نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس میں اقبال نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے جسے بعد میں پاکستان کا نام دیا گیا۔ دوسرا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں بنگال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ چنانچہ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد مغربی حصے کے دانشوروں نے دھڑا دھڑ اخباری مضامین لکھے تھے جن کا لب لباب یہ تھا کہ چونکہ اقبال نے بنگال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا اور قرارداد لاہور میں بھی ریاستوں کا ذکر تھا اس لیے مشرقی پاکستان کو الگ کر کے اس تاریخی غلطی کو درست کر دیا گیا ہے۔
کیا علامہ اقبال نے ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا؟
کیا اقبال کے اس خطبے سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ وہ ہندوستان کو تقسیم کر کے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیش تر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مندرجات کا سرسری سا جائزہ لے لیا جائے اور اس پس منظر پر بھی غور کر لیا جائے جو اس خطبے کا محرک بنا۔
یہ خطبہ تعارفی کلمات کے بعد ان ذیلی عنوانات پر مشتمل ہے:
اسلام اور قومیت
ہندوستانی قوم کا اتحاد
ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان
فیڈرل ریاستیں
سائمن رپورٹ اور فیڈریشن
فیڈرل سکیم اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس
مسئلہ دفاع
متبادل تجویز
راؤنڈ ٹیبل کانفرنس
(یہاں ضمناً اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ شریف الدین پیرزادہ کی مرتب کردہ کتاب Foundations of Pakistan اور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب نے اولین اشاعت کا جو عکس دیا ہے، اس میں بعض ذیلی عنوانات میں فرق ہے۔ تاہم یہ کوئی قابل لحاظ فرق نہیں ہے)
خطبہ الہٰ آباد کا پس منظر
اس خطبے کا پس منظر یہ ہے کہ اس زمانے میں کانگرس اس بات کی کوشش کر رہی تھی کہ ہندوستان کے لیے متفقہ دستوری سفارشات مرتب کی جائیں اور اس مقصد کے لیے پنڈت موتی لال نہرو کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو نہرو کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ مرتب کی اسے نہرو رپورٹ کہا گیا۔ اس رپورٹ میں سوائے ایک بات کے مسلمانوں کے سبھی مطالبات کو رد کر دیا گیا۔ جو مطالبہ تسلیم کیا گیا وہ صوبوں کی ازسرنو تشکیل کا تھا۔ لیکن جب 1930 میں لاہور میں کانگرس کا سیشن ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو کو صدر منتخب کیا گیا تو کانگرس نے خود ہی اس رپورٹ کو دریا بُرد کر دیا۔ اس کے جواب میں نومبر 1930 میں اپر انڈیا مسلم کانفرنس منعقد ہوئی اور 19 دسمبر 1930 کو اس کانفرنس کی جانب سے اہلِ فکر مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی گئی۔ گول میز کانفرنس سے قبل مسلمان چاہتے تھے:
1۔ ہندوستان کا نظامِ حکومت فیڈرل ہو۔
2۔ بلوچستان، سرحد اور سندھ کے مسلمان صوبوں کو مکمل اصلاحات ملیں۔
3۔ وزارتوں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کا حصہ بروئے دستور اساسی محفوظ کر دیا جائے۔
4۔ شریعت حقہ، تمدن اسلام، تعلیم اسلام اور مسلمانوں کا انفرادی قانون غیر مسلم دسترس سے بروئے دستور اساسی محفوظ کر دیا جائے۔
5۔ غیر مصرحہ اختیارات (residuary) صوبہ جات کے قبضہ میں رہیں۔
6۔ مرکز کی مجالس آئین ساز اور وزارت میں ہمارا حصہ ایک تہائی ہو۔ [میں اس کا حوالہ کھو چکا ہوں۔]
ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں
اس میں یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ ان میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ شامل نہیں ہے حالانکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس معاملے پر بہت زیادہ حساس تھی مگر کانگرس کسی صورت بھی اس مطالبے کو تسلیم کرنے پر تیار نہ تھی۔ پنڈت نہرو اپنی اقتصادی قومیت کے نشے میں فرقہ وارانہ مسئلے کا وجود ہی تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ پنڈت جی کے بارے سبھی لوگوں کی تقریباً ایک ہی رائے ہے کہ وہ آدرش وادی تھے اور زمینی حقائق سے کم ہی سروکار رکھتے تھے۔ اب اگر ایک مسئلہ موجود ہے تو آپ کے آنکھیں بند کر لینے سے وہ معدوم نہیں ہو جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان ایک متنوع سماج تھا جس میں نسلوں، زبانوں اور مذاہب کا بہت زیادہ اختلاف تھا چنانچہ ایسے سماج کا یک رنگ قومیت کو قبول کرنے کا کوئی امکان تھا ہی نہیں۔
علامہ اقبال نے ہندو مسلم اتحاد کی راہ میں حائل رکاوٹ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا تھا:
'یہ امر کس قدر افسوس ناک ہے کہ اب تک ہم نے باہمی تعاون و اشتراک کی جس قدر کوششیں کی ہیں، سب ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ناکامی کا باعث کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شاید ہمیں ایک دوسرے کی نیتوں پر اعتماد نہیں اور باطناً ہم تغلب و اقتدار کے خواہش مند ہیں۔۔۔ لیکن ہماری ناکامی کے اسباب کچھ بھی ہوں، میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی جانب نظر آتا ہے اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعلان کرنے میں مطلق تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور کے ایک مستقل اور پائیدار تصفیے کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہندوستان کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اس ملک میں آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی بھی دریغ نہیں کریں گے'۔ (اردو ترجمہ سید نذیر نیازی۔ میں نیازی صاحب کے ترجمے کے نوٹس پہلے بنا چکا تھا اور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کا ترجمہ بعد میں میرے علم میں آیا۔ اس لیے حوالے ملے جلے ہی ہوں گے۔)
اقبال کا نکتہ نظر یہ تھا کہ ہندوستان میں پائیدار وحدت اسی صورت جنم لے سکتی ہے جب اختلاف اور تنوع کو تسلیم کیا جائے:
'ہندوستان ایک براعظم ہے جس میں مختلف نسلوں، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب کے پیروکار آباد ہیں۔۔۔ [اس لیے] ہندوستان میں یورپی جمہوریت کے اصول کا اطلاق مذہبی فرقوں کے وجود کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے، بالکل حق بجانب ہے'۔
چنانچہ ان کے مندرجہ بالا جملے میں ہندوستان کے اندر ایک مسلم اکثریتی صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ صوبے کے لیے ریاست کے لفظ کا استعمال کوئی انہونی بات نہیں۔ فیڈریشن کی اکائیوں کو بالعموم ریاست ہی کہا جاتا ہے۔ اس جملے کے فوراً بعد یہ جملہ آتا ہے:
'اس تجویز کو نہرو کمیٹی میں بھی پیش کیا گیا تھا لیکن اراکین مجلس نے اسے اس بنا پر رد کر دیا کہ اگر اس قسم کی کوئی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ اس قدر وسیع ہو گا کہ اس کا انتظام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ بے شک اگر رقبے کا لحاظ کیا جائے تو اراکین مجلس کا یہ خیال صحیح ہے۔ لیکن اگر آبادی پر نظر کی جائے تو اس ریاست کے باشندوں کی تعداد اس وقت کے بعض ہندوستانی صوبوں سے بھی کم ہو گی'۔
اب یہ بات ظاہر ہے کہ نہرو کمیٹی کے سامنے ہندوستان کو تقسیم کرنے کی تجویز پیش نہیں کی گئی تھی۔ اس صوبے کے قیام کا مقصد اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ اس طرح موجود دستوری ڈیڈلاک سے نکلنے کا راستہ نکل آئے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں:
'صوبوں کی مناسب تقسیم سے مخلوط اور جداگانہ انتخاب کا مسئلہ ہندوستان کے آئین کے بارے میں نزاع کو خود بخود ختم کر دے گا۔ اس نزاع کا باعث بڑی حد تک صوبوں کی موجودہ تقسیم ہے۔۔۔ اگر صوبوں کی تقسیم اس طور پر ہو جائے کہ ہر صوبے میں کم و بیش ایسے گروہ بستے ہوں جن میں لسانی، نسلی، تمدنی، اور مذہبی اتحاد پایا جاتا ہو تو مسلمانوں کو علاقہ وارانہ انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا'۔
اس بات سے اقبالیات کے بڑے بڑے ماہرین کے اس دعوے کی تردید ہو جاتی ہے کہ اقبال زندگی کے کسی بھی مرحلے پر جداگانہ انتخاب سے دست برداری پر آمادہ نہیں ہوئے تھے۔ اقبال کی اس بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ جداگانہ انتخاب مذہبی نہیں، سیاسی مسئلہ تھا۔
کانگرس اور مسلم لیگ میں اصل اختلاف
ہندوستان میں کانگرس اور مسلم لیگ میں اصل اختلاف اور نزاع حکومت کی دستوری ہئیت کا تھا۔ مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان کا دستور وفاقی ہو جس میں وفاقی اکائیوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری حاصل ہو۔ کانگرس مضبوط مرکز کے ساتھ وحدانی طرز حکومت کے حق میں تھی۔ چنانچہ اقبال بھی مسلمانوں کے اسی نکتہ نظر کے حامی ہیں:
"میں خود مختار ہندوستان میں وحدانی حکومت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ جنہیں 'باقی ماندہ اختیارات' کہا جاتا ہے وہ خود مختار ریاستوں کو ملنے چاہئیں۔ مرکزی وفاقی ریاست کے پاس صرف ایسے اختیارات ہونے چاہئیں جو وفاق تشکیل کرنے والی ریاستیں اپنی رضامندی سے واضح طور پر اس کے سپرد کریں۔ میں ہندوستان کے مسلمانوں کو کبھی یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ کسی ایسے نظام حکومت پر خواہ وہ برطانوی ہو یا ہندوستان میں وضع کیا گیا ہو، اظہار رضامندی کریں جو حقیقی وفاق کے اصول کی نفی کرے یا ان کے جداگانہ سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرے"۔
ہندوستان کے دفاع سے متعلق خدشات
اس لیے اس خطبے میں بہت قابل غور وہ سیکشن ہے جس میں ہندوستان کے دفاع کے مسئلے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس مسئلے کو زیر بحث لانے کا سبب یہ ہے کہ اس زمانے میں پان اسلام ازم کی تحریک کا بھی چرچا تھا اور ہندوؤں کو خدشہ تھا کہ مسلمان افغانستان اور وسطی ایشیا سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہندوستان پر کہیں ایک بار پھر ادھر سے حملوں کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔ اقبال نے خطبے میں مسٹر سری نواس شاستری کے حوالے سے بیان کیا ہے: "کہ '[ان] کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا مطالبہ کہ شمال مغربی سرحد کے ساتھ خود مختار اسلامی ریاستیں قائم کی جائیں، ان کی اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو حکومت ہند پر زور ڈالا جا سکے'۔ میں یہ عرض کروں گا کہ مسلمانان ہندوستان کے دل میں اس قسم کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ ان کا مدعا صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنی ترقی کی راہ میں آزادی کے ساتھ قدم بڑھائیں لیکن یہ اس مرکزی حکومت کے تحت ممکن نہ ہو گا جسے قوم پسند ہندو ارباب سیاست محض اس لیے قائم کرنا چاہتے ہیں کہ ان کو دوسری ملتوں پر ہمیشہ کے لیے غلبہ ہو جائے"۔
اس کے ساتھ ہی لالہ لاجپت رائے کے سی آر داس کے نام اس خط کو بھی سامنے رکھا جائے جو شاید 1925 میں لکھا گیا تھا اور 1940 میں منظر عام پر آیا تھا جس کا قائد اعظم نے اس برس کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطاب میں حوالہ بھی دیا تھا۔ لالہ لاجپت رائے کے خط کا ایک جملہ قابل غور ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
'میں 7 کروڑ مسلمانوں سے نہیں ڈرتا بلکہ یہ سوچتا ہوں کہ ہندوستان کے 7 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ افغانستان، وسط ایشیا، عرب، عراق اور ترکی کے مسلح غول ایسے ہوں گے جن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا'۔
یہ درست ہے کہ یہ خط اقبال کی وفات کے بعد منظرعام پر آیا مگر اس سے اتنا پتہ ضرور چل جاتا ہے کہ اس زمانے میں یہ ہندوؤں کا عام احساس تھا۔ اس لیے اس خطبے میں اقبال بار بار مسلمانوں کی حب الوطنی کا تذکرہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے اس جذبے پر شک نہ کیا جائے تاہم حب الوطنی کا یہ جذبہ برابری کے سلوک کے ساتھ مشروط ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں:
'مجھے یقین ہے کہ اگر فیڈرل ریاست قائم ہو گئی تو مسلم فیڈرل ریاستیں ہندوستان کے تحفظ کی خاطر ایک غیر جانب دار ہندوستانی فوج کے قیام کے لیے جو خشکی اور سمندر دونوں پر متعین ہو، ہر قسم کی مدد دینے پر آمادہ ہوں گی۔ مغلوں کے زمانے میں اس قسم کے غیر جانب دار عساکر واقعتاً موجود تھے بلکہ اکبر کے زمانے میں تو ان تمام سرحدی افواج کے افسر ہندو ہی تھے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر فیڈرل نظام حکومت میں ایک غیر جانب دار ہندوستانی لشکر قائم ہوا تو اس سے مسلمانوں کے جذبات حب الوطنی اور زیادہ قوی ہو جائیں گے۔ اور اس بدگمانی کا بھی ازالہ ہو جائے گا کہ اگر باہر سے حملہ ہوا تو مسلمانان ہندوستان اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ مل جائیں گے'۔
دستوری مسئلے کا حل
اس خطبے میں اقبال نے دستوری مسئلے کے دو حل تجویز کیے ہیں۔ پہلا حل یہ ہے کہ:
'فرقہ وارانہ مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے برطانوی ہندوستان کی ازسرنو تقسیم کی جائے۔ اور اگریہ قبول نہیں تو پھر میں نہایت شدومد سے مسلمانوں کے ان مطالبات کی تائید کروں گا جس پر آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس نے بار بار زور دیا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان کبھی ایسی دستوری تبدیلی پر رضامند نہیں ہوں گے جس سے پنجاب اور بنگال میں ان کے اکثریتی حقوق پر اثر پڑے جو جداگانہ انتخاب کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے یا مرکزی اسمبلی میں ان کی 33 فی صد نمائندگی کی ضمانت نہ دی جائے۔۔۔ اور ہندوستان کے مسلمان کسی ایسی تبدیلی پر رضامند نہیں ہوں گے جس کے تحت سندھ کو علیحدہ صوبہ نہ بنایا جائے اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کو سیاسی حیثیت سے کم تر درجہ دیا جائے۔ میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ سندھ کو بلوچستان سے ملا کر کیوں نہ ایک صوبہ بنا دیا جائے'۔
اب یہاں ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال بنگال کا بھی ذکر کر رہے ہیں۔ اس وقت بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح کم کر کے اقلیتی صوبوں کی نمائندگی میں اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کی تفصیل ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے نمائندگی دی جائے جس کے نتیجے میں وہ واضح مسلم اکثریت والے صوبے بن جائیں گے اور حکومت سازی میں غیر مسلموں کے محتاج نہیں رہیں گے۔
اس تمام تر گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ اقبال نے خطبہ الہٰ آباد میں نہ تقسیم ہند کا کوئی تصور دیا اور نہ کسی آزاد خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر قولِ فیصل خود علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد کے دس ماہ بعد 10 اکتوبر 1931 کو لنڈن ٹائمز کے ایڈیٹر کے نام خط ہے جس میں ٹامسن کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
'کیا میں ڈاکٹر ٹامسن سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے برطانوی سلطنت سے باہر ایک مسلم مملکت کا مطالبہ پیش نہیں کیا ہے بلکہ دھندلے مستقبل میں ان زبردست قوتوں کی امکانی کارفرمائی کے متعلق یہ ایک تخمینہ ہے، جو برصغیر ہند کے مقدر کی اس وقت صورت گری کر رہی ہیں۔ کوئی ہندوستانی مسلمان جو عقل کا ادنیٰ سا شائبہ رکھتا ہے، عملی سیاست کے ایک منصوبہ ساز کی حیثیت سے برطانوی دولت عامہ سے باہر شمال مغربی ہند میں ایک مسلم مملکت یا مملکتوں کے سلسلہ کو قائم کرنے کا خیال نہیں کر رہا ہے۔۔۔ میں ہندوستان کی ایسے صوبہ جات میں ازسرنو تقسیم کا قائل ہوں، جس میں کسی ایک فرقہ کی اکثریت ہو، جس کی وکالت نہرو رپورٹ اور سائمن رپورٹ نے بھی کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلم صوبوں کے متعلق میری تجویز اسی تخیل کو آگے بڑھاتی ہے، ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر مطمئن اور منظم صوبوں کا ایک سلسلہ، سطح مرتفع ایشیا کی بھوکی نسلوں کے خلاف ہندوستان کے لیے، اور برطانوی سلطنت کے لیے ایک فصیل ثابت ہو گا۔ (زندہ رود، جلد سوم، ص 415)
جاری ہے۔۔۔
ڈاکٹر ساجد علی فلسفے کے استاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے فلسفے میں ایم اے کیا جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔