مولانا کی عمران خان سے ’ذاتی‘ رقابت کی وجہ کیا ہے؟

مولانا کی عمران خان سے ’ذاتی‘ رقابت کی وجہ کیا ہے؟
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے جو حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

صحافی سلیم صافی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ اب کوئی شک نہیں رہنا چاہئے۔ مولانا آنے کے لئے پوری طرح یکسو ہیں۔ ایسا نہیں کہ مولانا کو منانے کی کوششیں نہیں ہوئیں، کوششیں ہوئیں اور بھرپور ہوئیں۔


”ان کو اچھے بھلے پیکیجز آفر کئے گئے لیکن وہ نہیں مانے۔ اس سے کام نہ چلا تو انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن پیچھے ہٹنے کے بجائے وہ مزید بپھر گئے۔ وجوہات اس کی یہ ہیں کہ مولانا یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو لوگ انہیں منا رہے تھے وہ ان کے ساتھ ماضی قریب میں کئی بار دھوکہ کر چکے ہیں۔“

صحافی سلیم صافی نے لکھا

”درست یا غلط لیکن مولانا کا خیال ہے کہ 2013 میں بھی ان کا حق چھین کر عمران خان کو دیا گیا اور 2018 میں بھی۔

یوں مولانا کسی وعدے پر یقین نہیں کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات واضح کردی ہے کہ جو کچھ ان سے کہا جارہا ہے اسے پہلے عمل کے روپ میں لایاجائے تو تب ہی وہ پیچھے ہٹیں گے۔“

”دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے بارے میں مولانا روز اول سے سازشی نظریات کے قائل ہیں۔“

انہوں نے لکھا کہ ” 2012 میں پی ٹی آئی کے غبارے میں ہوا بھرنے والی ایک شخصیت جب ان کے پاس گئی اور انہیں عمران خان کے ساتھ تعاون کی صورت میں پرکشش سیاسی پیکیج پیش کیا تو مولانا نے انہیں جواب دیا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی سیاسی لیڈر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار ہیں لیکن ان کے ساتھ نہیں جاسکتے۔


عمران خان صاحب کے ساتھ مولانا کی خصوصی رقابت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ مولانا سمجھتے ہیں اور شاید درست سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب ان کے ساتھ ذاتیات پر اتر آئے ہیں۔ جلسوں میں جس طرح پی ٹی آئی کی طرف سے مسلسل ان کی تضحیک کی جاتی رہی، وہ سب کچھ مولانا نے دل پہ لیا ہوا ہے۔“

سلیم صافی کے مطابق ”پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد جس طرح مولانا سے ذاتی سیکورٹی واپس لے لی گئی اور جس طرح ان کے اور ان کے قریبی لوگوں کو انکوائریز کے ذریعے تنگ کیا گیا، اس کے بعد مولانا کی یہ سوچ بن گئی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ سیاسی اخلاقیات سے عاری ہے اور اس کے ساتھ اب دوسری زبان میں ہی بات کی جا سکتی ہے،مولانا کو ڈٹ جانے کی صورت میں ہر طرف فائدہ ہی فائدہ نظر آگیا ہے۔ ان کی سیاسی اہمیت بڑھ گئی ہے۔“

سلیم صافی نے لکھا " مولانا کا یہ یقین مزید پختہ ہوگیا ہے کہ ان کا مارچ بہر صورت دسمبر سے پہلے تبدیلی کا مقصد پورا کرلے گا۔ مولانا کی خود اعتمادی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ وہ دل سے صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کی نااہلی کے قائل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے یہ لوگ ان کے مارچ کو ہینڈل کریں گے اس سے ان کا کام مشکل ہونے کی بجائے آسان ہوتا جائے گا۔

اس تناظر میں مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد آنے میں اب کوئی شک نہیں۔ میاں نواز شریف تو اس نتیجے تک پہنچ گئے کہ انتخابات کے بعد اسمبلی میں نہ جانے سے متعلق مولانا کا موقف درست تھا لیکن اب یہ وقت بتائے گا کہ اسلام آباد مارچ سے متعلق مولانا کے اندازے درست ہیں یا غلط؟“