غدارستان کی کہانی ۔۔۔

غدارستان کی کہانی ۔۔۔
مسلم لیگ ن کے قائد اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف جب بیت مقتدرہ کی چھتر چھایا تلے اپنی سیاسی اننگز کھیل رہے تھے ،اور اپنے جلسوں میں تواتر سے بےنظیر بھٹو کو غدار ، انگریزوں کی ایجنٹ کہا کرتے تھے تب انکے وہم گمان میں بھی نہیں تھا ایک دن وہ خود اس پھندے میں پھنس جائیں گے۔ اور جب انہوں نے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بنایا تھا تب بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن خود ان پر بغاوت کا مقدمہ درج ہو جائے گا۔

 

اور نہ صرف ان پر بلکہ پوری نون لیگ کی مرکزی قیادت پر جس میں دو ریٹائرڈ جنرلز بھی شامل ہیں ،جنرل عبدلقادر بلوچ اور جنرل عبدل قیوم اب یہ دونوں حضرات یہ بیان دے رہے ہیں کہ ہم نے ملک کی خاطر جنگیں لڑی ہم کیسے غدار ہو سکتے ہیں؟ یہ موقف پرویز مشرف کا بھی تھا کہ میں نے اس ملک کی خاطر جنگیں لڑی ہیں میں کیسے غدار ہو سکتا ہوں؟ ہمارا المیہ یہ ہے جب کوئی اپنے اقتدار کے عروج پر ہوتا ہے تب اس سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں ہوتا مگر جسے ہی وہ زوال پذیر ہوتا ہے وہ غدار بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو غدار اور کافر کہنے کی روش نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مگر ابھی تک ہم اس بری عادت کو ترک کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور بھٹو صاحب جی ایم سید سندھ کے غدار تھے۔

ولی خان خیبر پختونخوا کے محمود خان اچکزئی بلوچستان کے غدار تھے اور پنجاب سے پہلے میجر اسحاق عاصمہ جہانگیر اور اب بیت مقتدرہ کے اپنے ماضی کے لاڈلے نواز شریف بھی غدار قرار دے دیئے گئے ہیں۔ اس فہرست میں ایک پٹھان عمران خان بھی آتا ہے۔ یہودیوں کا ایجنٹ ہے اور جس عورت کے ساتھ اسکی طلاق ہوئے 15 سال ہوگئے ہیں اب بھی وہ اپنے یہودی سابقہ سسر سر گولڈ سمتھ کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نواز شریف کو غدار تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ سیاسی لوگوں پر اسے الزامات نہیں لگانے چاہیں۔ مگر عمران خان پر غداری اور یہودیوں کے ایجنٹ ہوئے کے الزامات تواتر سے لگاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس سنجیدہ اور حساس موضوع پر آپس میں مکالمہ کرنا چاہیے۔ اس وقت پارلیمنٹ کی کوئی  ایسی جماعت نہیں جن کے قائدین پر غداری کے الزامات نہیں لگے۔ بلکہ پی ٹی ایم کے علی وزیر اور محسن دواڑر تو افغانستان کے ایجنٹ قرار دے جا چکے ہیں۔ کس قدر مذاق کی بات ہے ہمارے سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھارت برطانیہ اور افغانستان کے ایجنٹ براجمان ہیں۔ میرے لیئے یہ ایک قابل شرم بات ہے اور اس کے ذمےدار کوئی اور نہیں خود سیاست دان ہیں۔ جو ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے سے پہلے بھول جاتے ہیں کل کو وہ خود مکافات عمل کا شکار ہو جاتے ہیں۔  میرے خیال میں ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے اور قومی اسمبلی اور سینٹ میں باقاعدہ بحث کے بعد یہ قرارداد منظور کرانی چاہیے کہ آج کے بعد کوئی ایک دوسرے کو غدار قرار نہیں دے گا۔

ایک غیر سرکاری تنظیم وائس ہے جس کو ہمارے دوست خالق شاہ اور انکی شریکِ حیات بشریٰ خالق چلاتی ہیں ۔ ان کے زیر اہتمام ایک مجلس مشاورت کا اہتمام کیا گیا گیا جس میں صحافیوں کو مدعو کیا گیا اور ہیرالڈ جریدہ جو اب بند ہو چکا ہے اسکے آخری ایڈیٹر بدر عالم کی تقریر کو محرک بحث بنایا گیا۔  انہوں نے ہمارے معاشرے کے سماجی رویوں کی بڑی خوبصورتی سے عکاسی کی یہ یہاں ریپ کو صرف عورتوں کا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے اور جب کسی عورت کے ساتھ ریپ ہوتا ہے تو صرف عورتوں کی تنظیموں کو ہی احتجاج کرتے دیکھا جاتا ہے۔  کیا ریپ صرف عورتوں کا مسئلہ ہے جس عورت کے ساتھ ریپ ہوتا ہے وہ کسی کی بہن بیٹی اور بیوی نہیں،جس کی وہ بہن بیٹی اور بیوی ہے وہ مرد اس کو اپنی عزت قرار دیتا ہے تو پھر یہ عزت صرف عورتوں کی نہیں پامال ہوتی بلکہ ان مردوں کی بھی پامال ہوتی ہے۔

اس لئے عورت کے ساتھ مرد کو بھی ریپ کے خلاف میدان میں آنا چاہیے،میں اس موقف کی تائید کرتا ہوں اور بحثیت مرد برملا کہتا ہوں کسی مجبور عورت کا ریپ کرنا مردانگی کی علامت نہیں بلکہ نامردی کی ایک گھٹیا مثال ہے۔ ریپ کا شکار ہونے والی عورت کو سماج میں تذلیل کا نشانہ نہیں بننا چاہیے بلکہ اس عورت کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔