خلیج کے مسلمان ممالک، کافر لاطینی امریکہ اور قبضہ گیر اسرائیل

ہنوز عرب ممالک چندے کی نیت سے فلسطینی مسلمانوں کو چار ڈالر دے تو رہے ہیں مگر نسل کشی کو روکنے، قبضہ گیریت کو ختم کروانے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ رہے اور نہ ہی سوچیں گے۔

خلیج کے مسلمان ممالک، کافر لاطینی امریکہ اور قبضہ گیر اسرائیل

یہ سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ خلیجی مسلم ریاستوں کے نام نہاد طاقت ور، امیران و شاہان کی گھڑی یورپ و امریکہ کے کانٹے پر چلتی ہے۔ وہ کانٹے کو جہاں لے چلیں، یہ ہنسی خوشی اسے قبول کرتے جائیں گے۔ کوئی شک کرے گا اور نہ کوئی مزاحمت۔ کیونکہ دونوں اعمال کے لیے جمہوریت چاہئیے ہوتی ہے۔ فردِ واحد یا شاہی خاندانوں کی سلطنت اس کی اجازت کیسے دے گی بھلا؟

مثلاً عرب ممالک کی چند ٹویٹس سے زیادہ برطانیہ میں عام شہریوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ ان کی رائے اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت عرب دنیا سمیت او آئی سی ممالک سے زیادہ طاقتور ہے۔ وجہ محض یہ ہے کہ ان کا مؤقف لڑکھڑا نہیں رہا بلکہ صاف شفاف ہے۔

مسئلہ فلسطین کو مسلمان کی عینک سے دیکھنا دراصل فلسطینی مقبوضہ جات کو اسرائیلی مرضی سے تقویت بخشنے یا مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ مثلاً عام مسلمان فلسطین کے ساتھ یکجہتی کر کے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مزید 6 روزہ جنگ لڑیں گے، سفارتی تعلقات نہیں رکھیں گے، تیل برآمد نہیں ہوگا، طاقتور عرب ممالک اسرائیل کو نیست و نابود کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سوچتے سوچتے آدھا خلیج اسرائیل کا ہو گیا اور آدھا ہونے ہی والا تھا کہ حماس نے حملہ کر دیا۔

حماس بیچارہ عربوں کے تیل کے کاروبار و نفع سے بیزار ہو گیا تھا۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ اب تجارت عربوں کو بنی اسرائیل تک لے گئی ہے، وہ مجبوراً لائم لائٹ میں آ گئے۔ شاید دو عرب و چار عجم پھر ہمیں ڈسکس کرنے لگ جائیں۔

عام عرب تو شاید ڈسکس کرے، کچھ وقت بعد میڈیا و محلات میں ڈسکشن دم توڑ جائے گی۔ جنگ زدہ فلسطین کی آواز کب تک پرکشش محلات میں ٹھر پائے گی بھلا؟

لیکن خلیج کو امریکہ سمجھنے والے ایشیئن مسلمان پہلے سمجھ جائیں کہ خلیج وہ جانور ہے جو امریکہ کے بغیر گھاس نہیں کھاتا بلکہ کھا سکتا ہی نہیں۔ امریکہ خلیجی کھیتوں کی دیکھ بھال کرتا ہے تا کہ گھاس محفوظ رہے اور یہ کھاتے رہیں۔

مشرقِ وسطی امریکہ کا کاروباری ہب ہے اور اس کے دفاع اور جاسوسی کی ذمہ داری امریکی ذیلی ملک نما تنظیم اسرائیل کے پاس ہے۔ حیرت یہ ہے کہ امریکہ مسلمان شاہانِ خلیج کو چوکیدار کیوں نہیں ٹھہراتا حالانکہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیت سے کون انکاری رہے گا بھلا؟ لیکن اعتبار نامی کوئی چیز بھی ہوتی ہے ناں!

سامراج و سرمایہ دار کی مشینری اس حد تک دنیا پر قابض ہے کہ جسے چاہے تہذیب یافتہ قرار دے اور جسے چاہے بدتہذیب۔ مثلاً امریکن نواز اسرائیل ایک عام فلسطینی کو بدتہذیب اور جانور کہہ کر اس کا پانی، بجلی اور گیس بند کر چکا، 9 ہزار شہری شہید کر چکا مگر امریکہ اسرائیل کو عظیم ترین تہذیب قرار دے کر اس کی مدد کر رہا ہے اور اس کی جارحیت کو پے در پے جواز بخش رہا ہے۔

تہذیب و تہذیب والے ملکوں کی ریاضی لگانے والے ایشین اور تیسری دنیاکے ملک یہ سمجھ جائیں کہ تہذیب سامراج کی عطا کردہ وہ لکیر ہے جس کو ظالم، طاقتور اور غاصب ہی پار کرتا ہے۔ مثلاً اسرائیل، امریکہ، یورپ و دوسری و تیسری دنیا کے کچھ بے سر و پا ممالک۔

تہذیب والوں کی منافقت بخدا ہم سے ہزار گنا بڑی ہے۔ ہم جیسے لوگ جسے غلط سمجھتے ہیں اس کے بارے میں ایسا کہتے، لکھتے اور بولتے ہیں۔ امریکی صدر اسرائیل جا کر فلسطینی نسل کشی کا جائزہ لے کر فوجی کمانڈر کو شاباش کہہ کر واپس وائٹ ہاؤس لوٹ آتا ہے اور پھر نسل کشی میں متاثرہ فلسطینی کو دس کلو آٹا اور دو لیٹر پانی دینے کا اعلان کرتا ہے۔ امریکہ شاید بھول جائے مگر محکوم بار بار دہراتا رہے کہ قبضہ گیر کی امداد محکوم کی لاشوں، زخمیوں، زمین بوس گھروں اور زندہ و نیم زندہ متاثرین پر تھوکنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ہنوز عرب ممالک چندے کی نیت سے فلسطینی مسلمانوں کو چار ڈالر دے تو رہے ہیں مگر نسل کشی کو روکنے، قبضہ گیریت کو ختم کروانے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ رہے اور نہ ہی سوچیں گے۔

اگر کوئی جذباتی و نیم جذباتی مسلمان مسئلہ فلسطین کو اس لیے مسلمان کی عینک سے دیکھ رہا ہے کہ عرب فلسطین کو فتح کریں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ اس سے بہتر ہے مسئلہ فلسطین کو قبضہ گیر اور زیردست کے زاویے سے پرکھیں۔

اس سے اگر زیادہ کچھ حاصل نہ ہو لیکن پھر بھی یہ تو معلوم ہو ہی جائے گا کہ قبضہ گیری و سامراجی تسلط میں زندگی گزارنے والے آزادی کے بعد بھی قبضہ گیر سے نفرت ہی کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے لوگ اور ریاستیں قبضہ گیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر چکے اور مسلمان اسرائیل سے سفارتی تعلقات بہتر کرنے اور بڑھانے کے لیے نئے طریقے دریافت کرنے میں لگے ہیں۔

خیال رہے کہ امریکی نواز خلیج کے شاہی خاندان ہی تہذیب یافتہ ہیں، لاطینی امریکہ کے بولیویا، کولمبیا اور چلی کے لوگ نہ صرف بدتہذیب ہیں بلکہ الٹرا جذباتی مسلمان کے ہاں کافر بھی ہیں۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔