قلم اٹھائے دن گزر گئے لیکن پھر اندر کے انسان نے بندوق اٹھانے پراتنا اکسایا کہ مجبوراً لکھنے بیٹھی۔ یہاں اپنے آپ کو انسان لکھ رہی ہوں مسلمان نہیں کیونکہ بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہاں مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ آپ کو لوگوں سے لینا پڑتا ہے۔
نومبر کی شروعات میں آسیہ بی بی پر توہین مذہب کا الزام ثابت نہ ہونے پر عدالت عالیہ نے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد سب نے دیکھا کہ سڑکوں پر اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے کون کون نکلا اور ریاست کی املاک کو کیسے نقصان پہنچایا گیا۔ کیسے سڑکیں بلاک کی گئیں اور کیسے شہریوں کی زندگی اجیرن کی گئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=BAOj7D5KUbo
اتفاق سے میں اس وقت ایک فیلوشپ کے سلسلے میں امریکہ میں تھی۔ لیکن ایک صحافی ہونے کی وجہ سے اپنے ملک کے حالات پر پوری نظر تھی۔ اور ستم یہ کہ اپنے پیاروں سے دور تھی تو ان کی فکر بھی تھی۔
ایسے میں مجھے ان مولویوں پر شدید غصہ تھا اور میں نے اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لئے فیس بک پرسٹیٹس لگایا کہ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان۔ اور بس اس کے بعد بہت سے مولویوں کا خون جوش میں آیا۔ کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ جس کام کے لئے امریکہ گئی ہو اس پر توجہ دو تو کسی نے کہا کہ جس ملک میں آپ بیٹھی ہیں وہاں تو آپ کو ہم سب دہشت گرد دکھیں گے۔
میرا خون تو بہت کھولا لیکن اتنی دور سے تو ایسے لوگوں کیخلاف کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ دل چاہا جاکر انہیں آگ لگا دوں لیکن ایسے میں اپنے آپ کو کنڑول کیا۔
امریکہ میں قیام کے دوران سینٹ لوئس میں ہمیں پہلی بار یہودیوں کی عبادت گاہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یقین کریں ہمیں بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہی ہیں۔ ورنہ ہمارے معاشرے میں یہودیوں کے متعلق بات کرنے پر بھی ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے آپ خلائی مخلوق ہوں۔ اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب امریکی ریاست میں اپنے کوآرڈینیٹر رچرڈ ویس کو اجرک کا تحفہ پیش کرتے وقت کی تصویر ہم نے فیس بک پرشئیر کی اور ساتھ ہی تحریر کیا کہ رچرڈ ویس نے یہودیوں کے متعلق ہمارا نظریہ تبدیل کرنے میں مدد کی۔ تو اس پر کمنٹس ایسے ایسے آئے کہ ہمیں گمان ہوا کہ خدانخواستہ ہم اپنا ایمان بیچ آئے۔ کسی نے کہا کہ یہود و نصاریٰ؟ تو کسی نے کہا یہودی تو دوست ہو ہی نہیں سکتے۔ کسی ہمدرد نے توہمیں سمجھایا کہ کیپشن ہی تبدیل کر دو مسئلہ ہو جائے گا تمہارے لئے۔
https://www.youtube.com/watch?v=j8qLZSACxrQ
امریکہ سے واپس آئی تو کچھ دن قبل پریس کلب میں اپنے استادوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا تودوران گفتگو پتا چلا کہ یہی توہین مذہب قانون سندھ اور پنجاب میں کیسےاقلیتوں کوبلیک میل کر کے اس سے پیسے وصول کرنے میں کام آتا ہے۔
پچھلےدنوں کسی نےمجھے ایک پوسٹ شئیر کی کہ موجودہ وزیر اعظم کا خاندان قادیانی ہے۔
اس کے بعد ساری پرانی بات مجھے یاد آ گئی۔ تو مجبوراً دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے تحریر کرنا پڑا۔
پچھلے دنوں امریکی معاشرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اندازہ ہوا کہ ان کی ترقی کا راز انسان کو انسان سمجھنا ہے۔ مسلمان، ہندو، یہودی، عیسائی یا کچھ اور سمجھنا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کیا دنیا کے تمام روشن خیال لوگ جو اپنے آپ کو انسان سمجھتے ہیں وہ یہاں آ کر بسنے کوترجیح دیتے ہیں۔
امریکی ریاست سینٹ لوئس عیسائی اکثریتی ریاست ہے لیکن وہاں سب سے بڑا ہسپتال بارنز جیوش ہاسپٹل ہے۔ اس ریاست میں کسی یہودی نے ہسپتال بناتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس ریاست میں تو صرف ایک فیصد یہودی ہیں تو یہاں ہسپتال کیوں بنایا جائے۔
ایسی ہی مثالیں آپ کو امریکہ کی دوسری ریاست میں ملتی ہیں جہاں خدمت کے لئے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سے زیادہ انسان ہونا ضروری ہوتا ہے۔
امریکہ میں ٹیکنالوجی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہم ٹیکنالوجی میں امریکہ سے کسی طور پیچھے نہیں ہیں لیکن انسان کو انسان سمجھنے میں ضرور ہم پیچھے ہیں۔ اسی لئے ہم اب تک تیسری دنیا کے ممالک سے باہر نہیں آ رہے۔
کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ اب ہم پڑھے لکھے نہیں تو کم سے کم باشعور ہونے کا ثبوت دیں اور کسی کو ہندو اور کافر کہنے اور سمجھنے کے بجائے اس کو انسان سمجھیں اور کم سے کم کچھ کہنے سے پہلے اپنا کردار دیکھ لیں؟ ویسے بھی مسلمان حکمرانوں کے کارنامے کوئی قابل قدر تو ہیں نہیں اس لئے اگر کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والا کوئی اچھا کام کر لے تو تھوڑا دل بڑا کریں اور اسے سراہیں۔