کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اٹک کے ایک سکول کے لڑکوں نے سہمی ہوئی اسسٹنٹ کمشنر خاتون سے اُس کے عقائد کے بارے میں پوچھ گچھ کی تھی۔ حالانکہ آئین اور قانون میں اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہونے کے لئے کسی عقیدے سے وابستہ ہونے یا نہ ہونے کی کوئی شرط نہیں۔ اس پر بحث ختم نہیں ہوئی تھی کہ خبر آئی کہ ملتان کی بار ایسوسی ایشن نے قرار داد منظور کی ہے کہ آئندہ سے کوئی غیر مسلم ملتان بار ایسوسی ایشن کا عہدیدار منتخب نہیں ہو سکے گا۔ اور ممبران کو اپنے عقائد کا حلف نامہ جمع کرانا ہو گا۔
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے اس قسم کی قرارداد تو پہلے منظور کی ہوئی تھی۔ 15 جنوری کو اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کی کابینہ نے اعلان کیا کہ تمام ممبران اپنے مذہب کا حلف نامہ جمع کرائیں اور اگر مسلمان ہیں تو ختم ِ نبوت پر ایمان کا حلف نامہ بھی جمع کرانا ہو گا۔ اور اگر کچھ لوگوں نے یہ حلف نامے جمع نہ کرائے تو ان کے نام ایک ڈیفالٹر لسٹ میں ڈال کر اس لسٹ کو نوٹس بورڈ کی زینت بنا یا جائے گا۔
حالانکہ اس بار ایسوسی ایشن کا ممبر بننے کے لئے کسی مذہب یا مسلک سے وابستہ ہونے کی کوئی شرط نہیں۔ بلکہ اس کی ممبر شپ کے فارم میں جو اب تک ان کی سائٹ پر موجود ہے، مذہب کا کوئی خانہ ہی نہیں۔ ایسی قراردادیں راولپنڈی اور رحیم یار خان کی بار ایسوسی ایشنوں نے بھی منظور کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں بھی ایک معرکہ ہوا۔ اسمبلی میں کام کے دوران خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھا م کے لئے ایک محتسب کی تقرری کا ایکٹ پیش ہوا۔ جمیعت الرحمن ف سے وابستہ ممبر نعیمہ کشور صاحبہ نے یہ ترمیم پیش کی کہ اس عہدے پر مقرر ہونے والے شخص سے ختم ِ نبوت پر ایمان کا حلف نامہ لیا جائے ۔ حالانکہ آئین کے آرٹیکل 27کی رو سے اگر کوئی شخص کسی عہدے پر کام کرنے کے اہل ہو تو اسے اُس کے مذہب کی بناء پر اس عہدے پر مقرر ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ تو پھر حکومت محتسب کے ذاتی عقائد جاننے میں کیوں دلچسپی لے رہی ہے؟جب بعض اور ممبران نے اس ترمیم کی مخالفت کی تو آخر یہ فیصلہ ہوا کہ دو حلف نامے تیار کئے جائیں ۔ ایک مسلمانوں کے لئے اور دوسرا غیر مسلموں کے لئے۔
یہ اقدامات اس لئے بھی بے معنی ہیں کیونکہ جب بھی کوئی شخص شناختی کارڈ بناتا ہے تو وہ شخص اس میں اپنے مذہب کا اندراج کرتا ہے اور حلف نامہ بھی جمع کراتا ہے۔ اور یہی عمل پاسپورٹ بنانے کے وقت دہرایا جاتا ہے۔جب ایک مرتبہ نادرا ریکارڈ میں یہ تفصیلات آ چکی ہیں اور حلف نامہ بھی جمع کرایا جا چکا ہے تو اگر حکومت کو اس بارے میں تفصیلات درکار ہیں تو وہ اس ریکارڈ سے حاصل کر سکتی ہے۔ اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد ہر مرحلے پر پاکستان کے شہریوں سے ان کے مذہبی عقائد کی تفتیش کرنے سے کیا نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ یہ رحجان تو واضح نظر آ رہا ہے کہ ایک طبقہ جو اپنے آپ کو خدائی فوجدار سمجھتا ہے یہ کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کی شہری ہر مرحلے پر اس طبقے کے حضور حاضر ہو کر اپنے عقائد کی تفصیلات حلف ناموں کی صورت میں پیش کریں ۔ بالکل جس طرح کئی صدیاں قبل سپین میں چرچ کی چلائی گئی inquisitionمیں لوگ چرچ کے مقرر کردہ لوگوں کے حضور اپنا راسخ العقیدہ ہونا ثابت کرتے تھے۔ اور یہ خدائی فوجدار ان کے عقائد کے بارے میں فیصلے کرتے تھے۔
ایک طرف تو پاکستان کی حکومت اور پاکستان کا میڈیا اور پاکستان کے عوام دن رات یہ آواز بلند کر رہے ہوں کہ بھارت نے شہریت کے بارے میں قانون میں حال ہی میں جو ترمیم کی ہے، اس میں مسلمانوں کو باقی مذاہب سے وابستہ لوگوں سے علیحدہ رکھ کر ظلم کیا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں خود ایسے امتیازی قوانین بن رہے ہوں اور شہریوں کے عقائد کی چھان بین کا ایک سلسلہ جاری ہو تو ہمارے احتجاج کا کیا اثر ہو گا؟
کیا یہ سلسلہ صرف یہاں تک محدود رہے گا؟ نہیں۔ تنگ نظری کی ریل گاڑی کے لئے کوئی اسٹیشن آخری اسٹیشن نہیں ہوتا۔ اس کا سفر آگے سے آگے جاری رہتا ہے اور مزید امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔
2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول شدہ جج شوکت عزیز صدیقی صاحب نے ایک فیصلے میں یہ رائے دی تھی کہ مذہبی علماء اور ماہرین نفسیات کا ایک بورڈ تشکیل دیا جائے جو کہ حساس عہدوں پر مقرر ہونے والے اشخاص کے مذہبی اور نظریاتی رحجانات کا جائزہ لے۔ اور ریاست کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ شہریوں کے عقائد کیا ہیں؟ بلکہ اس بات کے دلائل دینے کی کوشش کی تھی کہ یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کے نام، لباس اور حلیہ مسلمانوں جیسا ہو۔ اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ احمدیوں کا نام اور حلیہ مسلمانوں کی طرح ہوتا ہے۔ اور یہ تجویز کیا تھا کہ احمدیوں کے نام کے ساتھ 'غلام ِ مرزا ' یا ' مرزائی ' کا اضافہ کر دینا مناسب ہو گا۔
اس فیصلے میں یہ زور بھی دیا گیا تھا کہ حکومت کے لئے ضروری ہے کہ احمدیوں کی لسٹیں بنائے اور پاکستان میں ان کی تعداد معلوم کرنے کے لئے کچھ ' سائنسی اقدامات ' بھی اُٹھائے جائیں۔
خدا جانے 'سائنسی اقدامات ' سے کیا مراد تھی ؟ کیا خون کا ٹیسٹ کر کے معلوم کرنا چاہتے تھے، خون میں قادیانیت کی آمیزش کتنی ہے ؟ یہ سوچنا ضروری ہے کہ اگر مسیحی ممالک یہ قانون بنانے کی کوشش کریں کہ ان ممالک میں مسلمان ان جیسا لباس نہیں پہن سکتے تو مسلمانوں کا رد ِ عمل کیا ہو گا؟
آجکل مغربی ممالک میں اور بھارت میں اسلام اور جہاد کے بارے میں مخصوص جذبات پائے جاتے ہیں۔ ان ممالک میں کروڑوں مسلمان بس رہے ہیں۔ اگر ان ممالک میں یہ قوانین بنا دیئے جائیں کہ مختلف عہدوں پر مقرر ہوتے ہوئے مسلمانوں سے جہاد کے بارے میں ان کے نظریات کا حلف نامہ لیا جائے بلکہ ماہرین ِ نفسیات مسلمانوں کے عقائد کا جائزہ لیں تو کیا مسلمان اس پر احتجاج کریں گے کہ نہیں؟ اس قسم کاسوال 1954میں بھی اُٹھایا گیا تھا ۔ جب اُس وقت احمدیوں کے خلاف ہونے والے فسادات پر عدالتی تحقیقات ہو رہی تھیں۔ کئی علماء نے کہا کہ پاکستان میں قانون سازی اور قانون کی تنقید میں غیر مسلموں کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے، انہیں وزیر یا جج نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی وہ فوج میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس پر پریشان ہو کر جج صاحبان نے سوال کیا کہ اگر ہندوستان میں ہندو قوانین کے ماتحت مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں جیسا سلوک کیا جائے تو کیا آپ کو اس پر اعتراض ہو گا؟ اس پر صدر جمیعت العلماء پاکستان محمد احمد قادری صاحب اور مودودی صاحب سمیت کئی علماء نے فتویٰ دیا تھا کہ اگر ہندوستان کے لوگ مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں جیسا سلوک کریں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔[رپورٹ تحقیقاتی عدالت 1953ص 245]
لاہور میں بعض دوکانوں پر یہ لکھا تو نظر آنے لگ گیا ہے کہ ہم فلاں مسلک سے وابستہ افراد کو کوئی چیز فروخت نہیں کرتے۔ جس طرح پاکستان میں ہر کوئی دوسرے سے اُس کے عقائد کا حلف نامہ مانگ رہا ہے، اس بات کا خدشہ ہے کہ خاکم بدہن وہ سیاہ دن نہ چڑھے، جب کوئی بازار سے آٹا لینے جائے تو دوکاندار کہے کہ پہلےکاؤنٹرپر مولوی صاحب کو عقائد کا حلف نامہ دکھا کر دوسرے کاؤنٹر پر ادائیگی کریں۔