ریاست قوم سے ہے یا قوم ریاست سے؟

ریاست قوم سے ہے یا قوم ریاست سے؟
بھائی بات بہت سادہ سی ہے۔ ہم سب انسان ہیں۔ ہم چاہے شہروں میں رہیں یا پھر دیہات میں، پہاڑوں پر رہیں یا میدانوں میں، ساحلوں پر رہیں یا جزیروں پر، جنگلوں میں رہیں یا بیابانوں میں، کسی براعظم کے ہوں، کسی ملک کے ہوں، کسی قوم، رنگ، نسل کے ہوں، کسی بھی خدا کے ماننے والے ہوں، جو چیز ہم میں مشترک ہے وہ ہے انسانیت۔ وہ مسئلہ جو ہم تمام انسانوں کو درپیش ہے وہ ہے بقا کا یعنی ہم سب کو بھوک لگتی ہے جس کو ختم کرنے کے لئے کھانا چاہیے، ہمیں رہنے کے لئے گھر، پہننے کے لئے لباس چاہیے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ محض فرد کی بقا سے انسانیت کی بقا ممکن نہیں ہے۔



اس لئے ہم نسل انسانی کی بقا کے لئے سماج کا سب سے بنیادی ادارہ خاندان بناتے ہیں جس میں کم سے کم یعنی دو انسان ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض طے کرتے ہیں۔ اور پھر اس کے پابند ہو کر اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ ایک خاندان کی بقا سے بھی بقا انسانی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہم قبیلے، اور قوم کی اکائیوں کی تخلیق کرتے ہیں۔ قوم کا نظم برقرار رکھنے کے لئے ریاست کا ادارہ تخلیق کیا جاتا ہے اور یہ ریاست جس ضابطے کی پابند ہوتی ہے اس کو آئین کہا جاتے ہے۔

آئین میاں بیوی کے درمیان طے پانے والے حقوق و فرائض کی ہی ترقی یافتہ شکل ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ یہ تعداد میں لاکھوں، کروڑوں اور بعض دفعہ اربوں لوگوں کے درمیان طے کیا گیا سمجھوتہ ہوتا ہے اور اس کے نفاذ کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے۔ بعض ریاستیں بہت سی اقوام کے وفاق کی صورت میں بھی وجود رکھتیں ہیں جن میں ایک سے زیادہ اقوام رہتی ہیں۔ یہ ریاستیں بھی اپنا نظم چلانے کے لئے ایک وفاقی آئین بنا لیتی ہیں جس کا حق یہ ہوتا ہے کہ وہ تمام اقوام پر برابر لاگو ہو۔



اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ یہ سب کچھ جو اوپر بیان کیا گیا انسان اپنے انفرادی اور اجتماعی فائدے کے لئے کرتا ہے اور اگر انسان کی بنائی ہوئی کسی چیز سے اس کو فائدے کے برعکس نقصان پہنچنے لگے تو وہ اس کو توڑنے یا ختم کرنے میں بھی دیر نہیں کرتا۔ گھر اگر بوسیدہ ہوجائے تو گرا دیا جاتا ہے اور نیا بنا دیا جاتا ہے۔ مرد اور عورت مل کر خاندان یا کنبہ ضرور بناتے ہیں لیکن اگر دونوں کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو یہ محسوس ہونے لگے کہ اب الگ ہو جانے میں بہتری ہے تو وہ الگ بھی ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے کسی مذہب، قانون یا ثقافت میں اس عمل کو ناجائز یا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

بالکل اسی طرح قبیلے اور قومیں بھی جڑتی اور تقسیم ہوتی رہتی ہیں۔ قومیں وفاق اس لئے بناتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے وسائل پر قبضہ نہیں کریں گی۔ ایک دوسرے کا دفاع کریں گی۔ اور ضرورت پڑنے پر الگ ہونے کا حق بھی مخفوظ رکھیں گی۔ ہمارے پاس امریکہ، یورپی یونین اور ماضی میں سوؤیت یونین کی مثالیں موجود ہیں۔ سوؤیت یونین کی مثال موضوع سے مطابقت اس لئے بھی رکھتی ہے کہ انقلاب روس کے بعد بے شمار اقوام اشتراکی روس کا حصہ بنیں لیکن جب ان کو لگا کہ ہمارا الگ الگ رہنا ہی مناسب ہے تو بغیر کوئی نفرت پالے ایک معاہدے کے تحت الگ ہو گئیں۔

اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔ آپ پاکستان کو اپنا گھر سمجھیں یا ملک، خود کو پاکستانی قوم سمجھیں یا ملت اور پاکستان کو اکھنڈستان سمجھیں یا پھر مختلف قوموں کا وفاق۔ لوگ اس میں تب تک ہی رہیں گے جب تک ان کی جان مال عزت آبرو محفوظ رہے گی۔ وزیرستان میں گذشتہ ایام میں ہونے والے واقعات کی تفصیل میں اگر جایا جائے اور ان چیزوں کو زیر بحث لایا جائے کہ کس نے جھنڈا جلایا اور کس نے چوکی پر حملہ کیا اور کس نے فائر کھولا تو ایک نہ ختم ہونے والی بحث کی جا سکتی ہے لیکن ان حالات میں اگر مقصد مسائل کا حل ہو تو بحث کا یہ طور نہیں اختیار کیا جاتا بلکہ معاملات کا اصولی طور پر جائزہ لیا جاتا ہے۔



رہی بات سچائی تک پہنچنے کی تو آپ میں اور وزیرستان کے لوگوں میں مشترک یہ ہے کہ آپ بھی عوام ہیں اور وہ بھی عوام۔ یہ لوگ اور پی ٹی ایم والے آپ کو کہیں بھی آسانی سے مل جائیں گے۔ ان کے پاس حوصلے سے بیٹھیں اور ان سے وہ سنیں جو ان پر بیتی ہے اور بیت رہی ہے اور اگر آپ زیادہ محب وطن ہیں تو ایک بار ان کے علاقے کا چکر لگا لیں تاکہ حقائق آپ پر واضح ہو جائیں۔ یقین مانیے فتوے بازی اور غداری کے سرٹیفیکیٹ سے اس معاملے میں کوئی سلجھاؤ نہیں آنے والا بلکہ اگر یہ روش جاری رہی تو شاید آپ کو ایک اور سقوط ڈھاکہ دیکھنا پڑ جائے جو آپ کو ہر گز اچھا نہیں لگے گا۔
آخر میں ایک بات پھر دہراؤں گا۔ یہ ملک، قوم، ریاست سب انسانوں کے لئے ہے۔ انسان ان کے لئے نہیں۔ خدارا انسانوں کو ان کے لئے قتل مت کریں۔