میرا تیرا رشتہ پاک بھارت جیسا

میرا تیرا رشتہ پاک بھارت جیسا
کہانی صدیوں سے شروع ہو یا عالم ارواح سے کہانی محبت کی ہی ہے۔ سنا ہے جو لوگ عالم ارواح میں ساتھ ہوتے ہیں وہ دنیا میں بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ اب ہم صدیوں سے ساتھ ہیں لیکن ہماری کہانی بھی ہر رومانوی فلم کی طرح ہے۔ جس میں پہلے پیار کرنے والے ایک ساتھ ہوتے ہیں پھر کسی تیسرے کے آنے سے محبت، دوستی، رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔

کیا سچ میں محبت، دوستی، رشتہ ختم ہونے کی چیز ہے؟

خیر چھوڑیں جی اس بات کو، کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہم ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ ہم نے آپس میں بات چیت بھی بند کر رکھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنا بھی شاید گوارا نہیں کرتے۔ لیکن بات نہ کرنا اور دور ہونے، جدا ہونے میں فرق نہیں کیا؟ میرا تیرا پیار پاکستان بھارت جیسا ہے۔ ایک دوسرے سے ہم ناراض ہیں لیکن ایک دوسرے سے دور نہیں۔ ہم پاس پاس، ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ سرحد پہ گولیاں بھی چلتی ہیں، ہم ایک دوسرے کو سخت جملوں سے چھلنی بھی کرتے ہیں، پھر بھی ایک دوسرے کے کرکٹ میچ میں جذبہ ہماری وجہ سے ہے۔ تو میرے پشاور سکول کے بچوں کی شہادت پہ کتنا روئی تھی۔ میں بھی تیرے بچوں کے قتل پہ اس رات بھوکا پیاسا سویا تھا۔

اگر تو سچ میں مجھ سے نفرت کرتی ہے تو پھر کیوں میری غزلیں سنتی ہے اور اگر میں اتنا سخت دل ہوں تو پھر تیری کہانیوں کا شیدائی کیوں ہوں؟

https://www.youtube.com/watch?v=YuHXF8TUGtQ

یاد کریں ہم کتنا عرصہ ساتھ رہے ہیں؟ کتنی یادیں وابستہ ہیں؟ ہماری محبت کی داستانیں صدیوں سے زندہ ہیں۔ تیرے دل کے چار خانوں میں ہندو، سکھ، عیسائی و مسلم تیرے وجود کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور میرے لئے بھی بلوچستان، سندھ، پنجاب و پختونخوا، میرا بھی دل ان سے آباد ہے۔

فرض کرو تم مجھے اپنے نفرت میں میرا وجود ہی ختم کرنا چاہتی ہو، فرض کرو تم مجھ پہ کوئی بم گرنا چاہتی ہو، تم مجھے مٹانا چاہتی ہو تو تم گوردوارہ پنجہ صاحب، گوردوارہ کرتار پور، ننکانہ صاحب، کٹاس راج مندر، ہنگلاج ماتا مندر، کالکا دیوی مندر، گورکھ ناتھ مندر، شری راما سوامی جی مندر، شاردا دیوی کا مندر اور باقی مقدس نشانات کا بھی نہیں سوچتیں؟ یہ تیرے وجود کے ٹکڑے تیری محبت میں ابھی تک میں نے سنبھال کر رکھے ہیں۔

اگر میں تم کو ختم کروں تو وہ میرے پیار میں آپ نے جو سنبھال کر رکھا ہے اجمیر شریف، تاج محل، جامع مسجد دہلی، شیح سلیم چشتی درگاہ، حاجی علی درگاہ، نظام الدین اولیا درگاہ، شاہ عالم مزار، خواجہ بندہ نواز، مدرسہ دیوبند وغیرہ کیا مجھے ان کا بھی ذرا خیال نہیں آئے گا؟

ہمارے پیار کی بڑی نشانی کشمیر، کیا ہم مل کر اس کو جلانا چاہتے ہیں، کیا اس کو ہم مٹانا چاہتے ہیں؟ کیا محبت کی نشانیوں کو یوں ہی آگ لگایا جاتا ہے؟  ہم اس کو سنبھال نہیں رکھ سکتے، آزاد ہی رکھ لیتے ہیں۔ اس کو سوگوار ہی کیوں، خوشگوار بھی تو رکھ سکتے ہیں۔ اس کو ویران کیوں، آباد بھی رکھ سکتے ہیں۔ اب ہم جدا ہیں۔ چلو مان لیا ایک نہیں ہو سکتے، پھر بھی قریب رہنا ہے۔ دور کہاں جائیں گے؟ میں چاہتا ہوں کہ سرحد کے آر پار سب گھر آباد ہوں، کسی کا گھر نہ جلے، کسی بیٹی کا گھر نہ اجڑے، کوئی ماں غمگین نہ ہو، کسی باپ کے بڑھاپے کا سہارا دور نہ ہو، کوئی بچہ یتیم نہ ہو، کبھی جنگ نہ ہو۔ تو ہولی کھیل، تو دیوالی بھی منا، میرے یہاں بھی عیدیں ہوں۔ کبھی بسنت منانے اکٹھے ہو جائیں تو بھی کوئی برائی نہیں۔ کبھی اجمیر شریف پہ ساتھ آنے کی بھی گنجائش رکھ۔ میں سلام کروں، بے شک تو نمستے کہنا۔ میری دعا ہے کبھی جنگ نہ ہو، یہ ہنستے بستے شہر ویران نہ ہوں۔

مصنف آزاد جموں و کشمیر میڈیکل کالج مظفرآباد سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں