بےجا لاڈ پیار نے عمران خان کو نرگسیت اور کھلنڈرے پن میں مبتلا کر دیا

بےجا لاڈ پیار نے عمران خان کو نرگسیت اور کھلنڈرے پن میں مبتلا کر دیا
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان گھر سے لے کر سکول،کرکٹ اور ملکی اقتدار حاصل کرنے تک قسمت کے دھنی رہے اور ان کا ہر جائز ناجائز لاڈ بھی اٹھایا جاتا رہا حالانکہ وہ ہر جگہ پرچی سے آگے بڑھے۔ اس بےجا لاڈ پیار نے انہیں نرگسیت اور کھلنڈرے پن میں مبتلا کر دیا۔ اسی لئے بارہا مواقع پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ ہمیشہ ہر طرح کی بےاصولی کر کے اپنی حیثیت سے زیادہ حصہ اور مرکزی حیثیت مانگتے رہے اور کامیاب بھی رہے ہیں لیکن جہاں انہیں یہ موقع نہ دیا گیا وہاں سے وہ اپنا رخ ایسے موڑتے ہیں کہ ان کے ہمیشہ لاڈ اٹھانے والے بھی دم بخود رہ گئے۔

پرویز مشرف کی انہوں نے ایسی خوشامد کی کہ ق لیگ بھی وہاں تک نہ پہنچ سکی لیکن ایک قومی اسمبلی کی بھیک میں ملی ہوئی سیٹ کے باوجود وہ وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتے تھے اور جب یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو وہی کھلنڈرا پن غالب آ گیا۔ کہاں عمران خان کو پرویز مشرف کے بغیر سانس لینا محال تھا اور کہاں وہ اس حد تک پہنچ گئے کہ پرویز مشرف کی نفرت میں افغانستان کی امریکی جنگ میں اپنی حمایت بھول کر باقاعدہ مشرف بہ طالبان ہو گئے۔

طالبان کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بھی ان کی ہدایت پر نام لئے بغیر مذمتی بیان جاری کیا جاتا اور جب بھی انہیں موقع ملتا وہ اس دہشت گردی کو جواز فراہم کرنےسے بھی نہ چوکتے۔ بظاہر تمام تر مصنوعی کرو فر کے باوجود یہ بات ان کی تربیت کا لازمی جزو رہی کہ جہاں سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے وہاں کسی بھی حد تک جھکا جا سکتا ہے۔اپنی مردانہ وجاہت، فاسٹ باؤلر ہونا اور اصلی ہیروز کی کمی کا شکار قوم کیلئے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت کر لانے کو عمران نے اپنے ذاتی فوائد کیلئے خوب استعمال کیا۔

کرکٹ سے لے کر سیاست تک عمران خان کو جہاں جھکنے کی ضرورت پڑی وہاں عمران خان نے اس کام میں ایک لمحہ بھی پس و پیش نہیں کی۔اور اس سے بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ جب عمران کا مقصد پورا ہو گیا اس کے بعد وہ اس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کرکٹ کے میدان میں سفارش چاہئے تھی تو جاوید برکی اور ماجد خان کی پرچی حاصل کی لیکن اپنے ہاتھوں سے ماجد خان کو ٹیم سے نکال باہر کیا۔ جنرل ضیاء، حمید گل،مشرف جنرل پاشا، ظہیر الاسلام اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو جس طرح عمران خان نے خواب دکھا کر اپنے حق میں استعمال کیا اور اقتدار کی خاطر ان کے کہنے پر اپنے مصنوعی دشمن بنا کر نوازشریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان پر چڑھ دوڑے کیونکہ ان کیلئے اقتدار حاصل کرنے کی شرط ہی یہ رکھی گئی تھی۔

اب یہ بھی ایک دلچسپ پہلو ہے کہ عمران خان ان تمام سیاستدانوں کی مختلف اوقات میں ضرورت کے مطابق خوشامد بھی کرتے رہے اور نوازشریف سے تو باقاعدہ مالی فوائد اور ہسپتال کیلئے چندہ بھی حاصل کرتے رہے۔لیکن جونہی تازہ سیاسی مقاصد کی خاطر انہیں نوازشریف کو دشمن بنانے کا حکم ہوا تو حمید گل سے تو ان کی صرف بول چال بند ہوئی تھی لیکن نوازشریف کو تو عمران نے ذاتی دشمن بنانے سے بھی گریز نہیں کیا اور ایسا دھرنا بھی دے ڈالا جس کے نتیجے میں خود تو طے شدہ نتائج نہ حاصل کر سکے لیکن پرویز مشرف کو باہر بھجوانے کا مشن پورا ہوگیا، یہ الگ بات ہے کہ سی پیک منصوبہ ایک سال تاخیر سے شروع ہو سکا۔خیر اس نقصان کا ملال نہ ان کو استعمال کرنے والوں کو ہوا اور عمران خان تو ایسے کسی احساس سے ہی ماورا ہیں۔ عمران خان کے نزدیک کسی کو فائدے کیلئے استعمال کرنا ،اسے دوست یا اچانک دشمن بنانا اور کسی کے ساتھ لڑائی یا صلح ان کا پیدائشی حق ہے اور انہی کے بیان کئے گئے اصولوں کی بنیاد پر بھی کوئی ان پر سوال اٹھانے کی جرات نہ کرے اور یہ تربیت ان کی گھٹی میں ہے۔

یہ کھلنڈرا پن ان کے اکلوتا بیٹا ہونے اور بعد ازاں کرکٹ کا سٹار بن جانے کی وجہ سے دوچند ہو گیا۔ وہ بھٹو کو بھی پسند کرتے ہیں اور پرانی پیپلزپارٹی کے کارکنوں جیسے پی ٹی آئی کے کارکن تیار کرنا ان کی ہمیشہ خواہش رہی اور وہ یقینا کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ بھٹو سے ان کا موازنہ غیرمناسب سہی لیکن یہ سچ ہے کہ بھٹو کے برعکس وہ انتہائی بزدل واقع ہوئے ہیں۔ عمران خان نے تمام عمر اپنے گلیمر اور جھوٹ کے ذریعے لوگوں کو استعمال کیا اور اس دھوکہ دہی کی فہرست میں جنرل،جج،صحافی، پی ٹی آئی کے کارکن،سیاستدان، امریکہ و یورپ میں شہریت حاصل کئے ہوئے سابقہ پاکستانی شہری سبھی شامل ہیں اور حال ہی میں عارف علوی،اسد قیصر اور قاسم سوری بھی اس فہرست میں شامل ہو کر عمرانی مقاصد کی بھینٹ چڑھے ہیں لیکن مجال ہے وہ بذات خود اپنے کسی اقدام کی ذمہ داری لیں یا کسی کا سامنا کرسکیں۔

عمران خان نے کرکٹ ورلڈ کپ اور بعد ازاں کینسر ہسپتال کی مہم کے ذریعے بڑی مہارت سے اپنے آپ کو ایسے برانڈ کے طور پر متعارف کروایا ہے جس میں کوئی خامی ہو ہی نہیں سکتی ۔ظاہر ہے اس مہم میں انہیں اپنے مہربانوں کا بھرپور تعاون حاصل رہا لیکن بہرحال میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں ایک قابل،بہادر اور دیانت کا دیوتا بنا کر پیش کرنا بہرحال ان کی اپنی دی ہوئی کامیاب سمت تھی۔ نت نیا بیانیہ بنانے اور اسے بار بار دہرا کر خاص طرح کے دماغوں میں منتقل کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ اسی لئے بطور وزیراعظم بھی عمران خان کی زیادہ توجہ اپنے میڈیا ایڈوائزر اور مخالفین کو گالیاں دیتی سوشل میڈیا ٹیموں پر رہی۔ بیانیہ بنانے اور بیچنے پر انہیں اس قدر مہارت حاصل ہے کہ ان پر اپنے ہسپتال، پارٹی اور دوستوں کے ذریعے ہر طرح کی کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور تقابل میں مخالف سیاستدانوں پر الزامات نہایت چھوٹے نظر آتے ہیں لیکن یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ وہ مخالف سیاستدانوں کے خلاف بدعنوانی کا ایسا خوفناک بیانیہ تیار کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ان کی سوچ کا مخالف بھی کسی دوسرے سیاستدان کو ایماندار کہنے یا سمجھنے سے کتراتا ہے اور عمران خان کا حامی تو یہ ماننے کو ہی تیار نہیں کہ وہ بدعنوان ہو سکتا ہے۔

ابھی حال ہی میں موصوف نے اپنے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ بنایا ہے اور اس سادگی کے ساتھ عوام کے آگے پیش کیا ہے کہ ان کی اس ابلاغی تکنیک اور سلاست کو داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ جن لوگوں کے سامنے عمران خان نے یہ بیانیہ پیش کیا ہے ان کی دماغی صلاحیت کو عمران خان پہلے ہی مفلوج کر چکے ہیں ۔اس کے ساتھ موصوف نے اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر مذہب کا ایسا بےدریغ استعمال کیا کہ ضیاءالحق کو لوگ یاد کرنے لگے۔بیچارے سیاستدان نہ صرف ایسی افتاد کیلئے تیار نہیں تھے بلکہ وہ ابلاغی طور پر کبھی بھی اس قابل نہیں رہے کہ نت نئے بیانیہ کے حملوں کا جواب دے سکیں۔

عمران خان کا پیغام بڑا واضح، اور سادہ ہے کہ چونکہ امریکہ ان کی حکومت گرانا چاہتا ہے لہذا اس کی فرمانبرداری میں جنرل باجوہ اور ان کی ٹیم نے اپوزیشن اور عدلیہ کے ساتھ مل کر ان کی حکومت ختم کی ہے لہذا یہ تمام لوگ غدار ہیں۔اس بیانیہ کی ایسی کامیاب دھول اٹھی ہے کہ اس غبار میں شاید آنے والے دنوں میں عمران خان،عارف علوی یا سپیکر آفس پر آئین توڑنے کی وجہ سے سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کی کسی کو جرات نہ ہو۔اسی بیانیہ کے ذریعے عمران خان نے اداروں کے اندر ایسی خطرناک تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو دوسرے سیاستدانوں نے تمام تر اختلافات اور زیادتی کے باوجود کبھی ایسا کرنے کی کوشش نہیں کی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈز بنائے گئے کہ الاامان والحفیظ اور بقیہ محسنوں کی طرح یہ وہ تازہ محسن ہیں جو حال ہی میں عمران کو اقتدار میں لے کر آئے اور ہر طرح کی بدنامی بھی اٹھائی۔اب اس دعوے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بہت جلد عمران خان کے دوست عارف نقوی جو کئی ملین ڈالرز کے فراڈ کے الزام میں برطانیہ میں گرفتار ہیں کو امریکہ منتقل کیا جانا ہے اور پھر جیسا کہ فارن فنڈنگ کیس میں بھی ذکر ہے کہ کس طرح یہ غبن کئے ہوئے پیسے پی ٹی آئی کو چندے کی صورت یا نقد رقم کی صورت عمران خان تک پہنچتے رہے۔ظاہر ہے اس جرم کے ثابت ہونے کے بعد امریکہ اور برطانیہ میں عمران خان اور پی ٹی آئی کا جو انجام ہوگا وہ دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ عمرانی حکومت تو سی پیک کو تقریبا بند کر چکی تھی، کشمیر کو سب نے مکمل منصوبہ بندی سے ہندوستان کے حوالے کیا۔ تو کیا امریکہ اس حکومت کو اپنا دوست نہیں سمجھے گا اور اگر امریکہ عمران خان سے ناخوش ہے تو پھر جین کیوں ناراض ہے یا سی پیک کو کیوں بند کیا گیا۔لیکن اپنے جرائم چھپانے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے ملکی مفاد کو ایسا نقصان پہنچایا گیا ہے کہ درستگی کو سالوں لگیں گے۔لیکن گوئبلز کے شاگرد نے بیانیہ اتنا پراثر بنایا ہے اور مخالف سیاستدانوں کو اس فنکاری اور بے رحمی سے ولن بنا کر پیش کیا ہے کہ ریٹائرڈ جرنیل تک اس جھوٹ کا شکار ہیں۔

عمران خان چاہے بھٹو نہیں ہو سکتے لیکن تمام تر جھوٹ اور دھوکہ دہی کے باوجود وہی غلطی دہرائی ہے جو بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کو خوش رکھنے کیلئے کی تھی۔ عمران خان نے بالکل اسی طرح اپنے سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا تا کہ اسٹیبلشمنٹ اور ان کے مقاصد بظاہر ایک نظر آئیں حالانکہ سیاستدان تو ان کی برادری تھے۔بھٹو کے برعکس عمران خان نے تو اپنی اکثریت پوری رکھنے کا کام تک اپنے مہربان کے سپرد کر رکھا تھا۔نتیجہ بالکل وہی نکلا یعنی بھٹو کے آخری وقت کی طرح وہ بھی سیاسی طور بالکل تنہا ہیں۔کوئی سیاسی قوت ان کی پشت پر موجود نہیں۔ان کا گلیمر اور بار بار دہرایا جانے والا جھوٹ پر مبنی بیانیہ ہی صرف ان کے ساتھ ہے لیکن پہلی بار لوگوں کو پتہ چلنے لگا ہے کہ پی ٹی آئی کو رفتہ رفتہ عمران خان عین اپنی طبیعت کے مطابق ایک سیاسی پارٹی کی بجائے ایک فاشسٹ گروپ میں تبدیل کر چکے ہیں اور اس مشن کی تکمیل میں نہ صرف عوام اور ملکی اداروں میں خطرناک تقسیم کا کھیل کھیلا گیا بلکہ اس بیانیہ کی بھینٹ چین،سعودی عرب اور آخر میں امریکہ کےساتھ تعلقات کو بھی چڑھا دیا گیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا اتنا ہے کہ نااہلی اور ملک کو ہونے والے نقصان پر کسی کی نظر پڑنا محال ہے۔

اس فاشزم کو روکنے کی ذمہ داری اب صرف سیاستدان نہیں اٹھا سکتے بلکہ قومی سلامتی کے اداروں کو آگے بڑھ کر عوام کو یہ بتانا ہوگا کہ یہ عمرانی گروہ اپنے اقتدار کی خاطر ملکی مفادات سے کس طرح کھیل رہا ہے اور ان کے آئندہ کے ارادے کیا ہیں۔ ابلاغی ماڈل وہی اپنایا جائے جو عمران خان اپنے بیانیہ کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ریاست کو لوگوں کو اب یہ بتانا پڑے گا کہ عمران خان نے اقتدار میں رہنے کیلئے کس قدر منت سماجت اور بعد ازاں کس کھلنڈرے پن کا سہارا لیا۔ اب یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ عمران خان کے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ سے شدید غلطی ہوئی اور عمران خان کس طرح تمام اداروں میں تقسیم اور نفرت کے بیج بو کر اپنے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے اور اس گروہ کی ان کوششوں کی بدولت ملکی سلامتی کو کتنے شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔