واجبی سی شکل تھی، نہ چہرہ ہیرو والا نہ لب و لہجہ اور نہ ہی انداز، اور جب جے پور کے اس لمبے تڑنگے نوجوان نے ساتھی کو بتایا کہ وہ ایک دن ہیرو بنے گا تودوست ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ دو دن تک تو اس نے یہ بات پیٹ میں دبا کر رکھی لیکن پھر دوسرے یار دوستوں کو بتایا تو ایسا مذاق اڑایا گیا کہ اس نوجوان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ رات میں بستر پر لیٹتے ہوئے اس نے خود سے ایک فیصلہ کیا کہ وہ ان دوستوں کا غلط ثابت کر کے رہے گا۔ والدہ لیکچرار بنانا چاہتی تھیں لیکن اس کے اندر اداکاری کا جوار بھاٹا ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
اسی مقصد کے کو پانے کے لئے والدہ سے اچھی نوکری کا جھوٹ بول کر وہ جے پور سے دہلی کے نیشنل سکول آف ڈراما کا رخ کر بیٹھا جہاں داخلے کے لئے یہ شرط تھی کہ کم از کم دس سٹیج ڈراموں میں کام کیا ہو۔ معمولی سی شکل و صورت والے اس نوجوان نے اپنی زندگی کا دوسرا جھوٹ یہ بولا کہ وہ ایسا کر چکا ہے۔ داخلہ تو مل گیا۔ جس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اب باقاعدہ اداکاری سیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں بے شمار سپنے تھے۔ خود کو دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور نصیر الدین شاہ ثابت کرنا چاہتا تھا۔ ان کے نعم البدل کے طور پر پیش کرنے کی آرزو تھی۔
قسمت ساتھ دیتی جا رہی تھی۔ 1988 میں ہدایتکارہ میرا نائیر نے جب سلام بمبئی بنانا شروع کی تو وہ اس نوجوان کی اداکاری کا چرچا سن چکی تھیں، جبھی کاسٹ کیا۔ دو مہینے تک وہ اس فلم کے یونٹ میں رہے۔ ریہرسل کی، مکالمات کس طرح ادا کرنے ہیں اس کی خوب مشق کی لیکن پھر ایک دن یہ بری خبر ملی کہ اب وہ اس فلم کا حصہ نہیں۔ نوجوان پھر ٹوٹ سا گیا۔ سارے سپنے ایک ساتھ بکھرتے نظر آئے لیکن اس مرحلے پر گرل فرینڈ سوتاپہ سکدار جو نیشنل سکول آف ڈراما کی بھی ساتھی تھی نے ایک نئی ہمت اور جوش دیا۔ اور یہیں سے اس نوجوان کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ جسے دنیا نے پھر بعد میں عرفان خان کے نام سے شناخت کیا۔
عرفان خان کا کہنا تھا کہ وہ مکمل طور پر مایوس ہو چکے تھے۔ لیکن گرل فرینڈ جو بعد میں زندگی کی ساتھی بھی بنیں کا اصرار تھا کہ بڑے پردے کی فکر چھوڑیں۔ چھوٹی سکرین پر جو کام ملے، کرتے جائیں۔ یہ وہ دور تھا جب بھارت میں کئی سیٹلائٹ چینلز کی بھرمار ہوئی تھی۔ عرفان خان کی منزل فلم تھی لیکن بحالت مجبوری انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اچھے وقت کی آس لگا لی۔ کئی ٹی وی سیریلز، ٹیلی فلمز اور ڈراموں میں جلوہ گر ہوتے گئے۔ برا وقت تو وہ بھی عرفان خان نے دیکھا جب ایک ڈرامے میں غیر معیاری اداکاری کا طعنہ لگا کر ان کا معاوضہ تک کاٹ لیا گیا۔
نیشنل سکول آف ڈراما کے ان کے ایک اور ساتھی تگمانشو ڈھولیا نے عرفان سے ایک وعدہ کیا کہ اداس نہ ہوں کیونکہ ایک نہ ایک دن جب بھی وہ فلم بنائیں گے، اس میں عرفان خان کو ضرور شامل کریں گے۔ اس جدوجہد اور ان تھک محنت کرتے کرتے عرفان خان کو لگ بھگ بیس سال بیت گئے۔ لیکن کیسا اتفاق ہے کہ بالی وڈ میں کوئی ہدایتکار انہیں اپنی فلم میں کاسٹ کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔ کوئی انہیں سیٹ پر بلا کر ملنے سے انکار کر دیتا، کوئی ان کا فون اٹھانا گوارہ نہیں کرتا، اسی بے بس اور لاچار لیکن ہرفن مولا اداکار کو جس پہلی فلم میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا وہ برطانوی تھی۔
2001 میں ریلیز ہونے والی ’The Warrior‘ نے تو جیسے عرفان خان کو زمین سے اٹھا کر فلک پر بٹھا دیا۔ ہدایتکار آصف کپاڈیہ نے ان کے کئی سٹیج اور ٹی وی ڈرامے دیکھے تھے اور انہوں نے ہی عرفان خان کو بڑے پردے پر بریک دیا۔ تگمانشو ڈھولیا جو پہلے ہی عرفان خان کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ انہوں نے 2003 میں ’حاصل‘ میں عرفان خان کو وعدے کے مطابق فلم کا حصہ بنایا۔ یہ کردار منفی نوعیت کا تھا جو طالب علم رہنما ہوتا ہے۔ عرفان خان نے اس میں حقیقت کے رنگ بھر دیے۔ اس کے بعد پھر عرفان خان نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ مقبول، لائف ان آ میٹرو، پان سنگھ تومار، حیدر، غنڈے، پیکو، اور دی لنچ بکس ان کے نام کے ساتھ جھملاتی رہیں۔ اسی طرح ہندی میڈیم اور انگریزی میڈیم بھلا کہاں ذہنوں سے نکالی جا سکتی ہیں؟ بالی وڈ سے ہالی وڈ میں بھی اس اداکار کا سفر شروع ہوا۔ جہاں انہوں نے سلم ڈاگ ملینئر، امیزنگ سپائیڈر مین، جراسک ورلڈ اور لائف آف پائی میں جم کر اداکاری کے جوہر دکھائے۔
عرفان خان کے کرئیر میں ’نیم سیک‘ بھی آئی۔ اس فلم کی ہدایتکارہ میرا نائر ہی تھیں۔ جنہوں نے اُس وقت عرفان خان کو اپنی فلم سے بے دخل کیا تھا جب ان کا فنی سفر بیچ منجدھار میں تھا۔ لیکن پھراسی ہدایتکارہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے عرفان خان کو اس مووی میں پیش کیا جس نے زبردست کامیابی حاصل کی۔
عرفان خان، بھارت کے قومی ایوارڈ کے ساتھ پدما شری ایوارڈ کے بھی حقدار ٹھہرے۔ دو سال پہلے دماغ کے موذی مرض کا انکشاف ہوا تو جیسے انہوں نے فلمی دنیا سے دوری اختیار کر لی۔ اس بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، تبھی واپس بھارت کا رخ کیا۔ جہاں ان کی آخری فلم ’انگریزی میڈیم‘ کی عکس بندی شروع ہوئی۔ فلم کی نمائش لاک ڈاؤن کے ماحول میں ہوئی اور پھر زندگی کی اٹکتی سانسوں نے اس عظیم اداکار کو اور مہلت نہ دی۔ صرف 54 برس میں لاتعداد مثالی کرداروں کا تحفہ دینے والا یہ اداکار اس راہ پر چل پڑا جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوتی۔
عرفان خان کی اداکاری کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے درحقیقت دھیمے لہجے میں منفی اور مثبت کردار دونوں ہی بہترین انداز میں ادا کیے۔ وہ عام روایتی ولن کی طرح چیختے چلاتے نہیں تھے۔ بالخصوص یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جس فلم میں وہ ولن بن کر جلوہ گر ہوئے وہ جب جب سکرین پر آئے اپنی آنکھوں اور پر اثر مکالمات سے انہوں نے دیکھنے والوں پر اپنے کردار کی دہشت طاری کی۔ کمرشل ہی نہیں، آرٹ فلموں میں نصیر الدین شاہ اور اوم پوری کی دوری سے جو خلا ہوا اسے بھرپور اداکاری سے پُر کر کے دکھایا۔ جے پور کے اس نوجوان نے جو سپنا ہیرو بننے کا دیکھا تھا وہ ایک دن پورا تو ہوا لیکن انتہائی مختصر عرصے میں وہ اپنے منفرد اور اچھوتے کرداروں کی بنا پر غیر معمولی شہرت حاصل کرنے کے بعد اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ 17 برس کے فلمی کریئر میں صرف شہرت اور کامیابی کی داستان لکھی ہے۔ لیکن زندگی کا اختتام ایسے ہوگا یہ کسی نے کبھی بھی تصور نہیں کیا تھا۔