عرفان خان کا شمار ہندوستان کے ان اداکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے صرف اپنی کلا اور اچھوتے انداز کے باعث بالی وڈ اور پھر ہالی وڈ میں بھی نام کمایا۔ 7 جنوری 1967 کو راجستھان کے ایک مسلمان خاندان میں پیدا ہونے والے عرفان خان نے اپنی پہلی فلم 1988 میں کی۔ اس فلم کا نام سلام بومبے تھا اور یہ باکس آفس پر کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہ سکی۔ اس کے بعد عرفان خان کئی برسوں تک کسی فلم میں نظر نہیں آئے لیکن 2001 میں برطانوی فلم The Warrior جو کہ راجستھان ہی کے پس منظر میں بنائی گئی تھی نے عرفان خان کی صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں منوایا۔ اس فلم کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی اور اسے برطانیہ کی جانب سے آسکر کی nominations کے لئے بھی شارٹ لسٹ کیا گیا لیکن بعد ازاں یہ اس بنیاد پر نہیں بھیجی گئی کہ اس کی زبان ہندی تھی۔
تاہم، عرفان خان کے فلم کریئر کو اس فلم نے ایک ایسا boost دیا جو چند ہی برسوں میں انہیں شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ 2003 میں حاصل اور پھر 2004 میں مقبول میں ان کے کام کو ہندوستان بھر میں سراہا گیا۔ مختلف فلموں میں چھوٹے لیکن طاقتور کردار نبھانے کے بعد 2011 میں پان سنگھ تومار میں ان کی شاندار کارکردگی کو National Film Award for Best Actor کے ذریعے پذیرائی بخشی گئی۔
یہی وہ فلم تھی جو انہیں شہرت کی بلندیوں تک لے گئی اور ان کے کام کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانے لگا۔ ہالی وڈ فلم Life of Pi میں پائی کا بڑی عمر کا کردار بھی انہوں نے نبھایا۔ یہ فلم دنیا بھر میں پسند کی گئی۔ گو کہ عرفان خان کا کردار اس فلم میں چند منٹ پر ہی مشتمل تھا، ان کے کام نے دیکھنے والوں کو متاثر کیا اور یہی وجہ تھی کہ انہوں 2015 میں Jurrasic World اور پھر 2016 میں Inferno جیسی شہرہ آفاق فلموں میں بھی کام ملا۔
2017 میں عرفان پاکستانی اداکارہ صبا قمر کے ہمراہ فلم ہندی میڈیم میں جلوہ افروز ہوئے تو دونوں ہی کے کام کو شاندار پذیرائی ملی۔ اس فلم نے 100 کروڑ سے زیادہ کا کاروبار کیا جب کہ فلم میں کوئی بڑا نام یا آئٹم نمبر بھی نہیں رکھا گیا تھا جو کہ گذشتہ کچھ عرصے سے ہندوستانی فلموں میں ایک رواج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
یہ فلم صرف اپنے concept، طاقتور سکرپٹ اور بہترین اداکاری کے باعث سپر ہٹ کا درجہ اختیار کر گئی تھی۔ فلم میں عام ہندوستانیوں کے انگریزی سے مرعوب ہونے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھانے کے لئے والدین کے ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کرنے کے مسئلے کو انتہائی دلچسپ انداز میں اجاگر کیا گیا تھا۔
لیکن اپنی پہلی 100 کروڑ کی فلم کی خوشخبری کے ساتھ ہی عرفان خان کو ایک دھچکا بھی لگا جب اگلے ہی برس انہیں neuroendocrine tumor کا مرض تشخیص ہوا۔ گذشتہ تین برس سے عرفان خان اس مرض سے جوچ رہے تھے اور اس دوران ان کے آپریشنز بھی کیے گئے۔ گذشتہ برس ایک موقع پر ان کی وفات کی خبر بھی میڈیا پر گردش کرنے لگی تھی جس کے بعد انہوں نے بیان جاری کیا تھا کہ میں فی الحال زندہ ہوں اور اپنی بیماری کا علاج کروا رہا ہوں۔ تاہم، 29 اپریل 2020 کی صبح یہ خبر ان کے چاہنے والوں پر آسمانی بجلی کی طرح گری کہ ان کے پسندیدہ اداکار عرفان خان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ عرفان خان ایک بہترین کرکٹر بھی تھے۔ عرفان خان کو CK Nayadu Tournament کے لئے ٹیم میں بھی منتخب کر لیا گیا تھا جو کہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کی آمد کا راستہ کھولنے جا رہا تھا لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پیسوں کی کمی کے باعث عرفان خان ٹورنامنٹ کھیلنے نہیں جا سکے اور کچھ ہی سالوں بعد فلمی دنیا کے ایک دمکتے ستارے بن گئے۔
لیکن قدرت نے ان کو ان کے مداحوں سے بہت جلد ہی چھین لیا۔ 28 اپریل کی صبح اچانک طبیعت بگڑ جانے پر انہیں ممبئی کے کوکیلا بھین دھیرو بھائی امبانی اسپتال داخل کروایا گیا جہاں اگلے ہی دن ان کا انتقال ہو گیا۔ یاد رہے کہ صرف چار دن قبل، یعنی 25 اپریل کو عرفان خان کو اپنی والدہ کی وفات کا صدمہ بھی سہنا پڑا تھا جو شاید ان کی بگڑتی صحت کے باعث ان کے لئے برداشت کرنا ناممکن ہو گیا۔
عرفان خان کا فلمی کریئر ان ہزاروں، لاکھوں اداکاروں کے لئے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے جو ممبئی سے دور دراز ایک شہر میں پیدا ہو کر صرف اپنی محنت، قابلیت اور لگن کے بل بوتے پر فلم کی دنیا میں اپنا نام بنانا چاہتے ہیں۔ عرفان خان ایک شاندار اداکار کے ساتھ ساتھ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2014 میں فلم ’حیدر‘ میں ایک مسلمان کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم کشمیری مسلمانوں پر بھارتی ریاست کے مظالم کو منظرِ عام پر لائی۔ عرفان خان نے اس میں ایک پراسرار قسم کا کردار ادا کیا تھا اور فلم میں اشارۃً انہیں پاکستانی ایجنٹ دکھایا گیا تھا۔ لیکن یہ بھی دکھایا گیا تھا کہ وہ آزادی کے ایک متوالے تھے جنہیں ہندوستانی پولیس اور فوج کے تشدد نے انتہا پسند بنا دیا تھا۔
عرفان خان اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کے لازوال کردار اور شاندار اداکاری ہمیشہ ان کو ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رکھے گی۔