‎انسانیت کا رشتہ

‎انسانیت کا رشتہ
‎دسمبر کی ایک خوبصورت شام تھی اور مانچسٹر کی مشہور و معروف شاہراہ ویلمزلو روڈ کرسمس لائٹس اور وہاں پر موجود مختلف ریستوران کی رنگ برنگی روشنیوں کے سبب ایک خوبصورت اور رومانوی ماحول کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ایسے میں کئی من چلے جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے خوش گپیوں میں مصروف نظر آتے تھے، کہیں ٹولیوں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے گروہ اور کہیں میاں بیوی اور بچوں کی لڑنے کی آوازیں اس رومانوی منظر کے احساس کو مزید دو بالا کرتے تھے۔ ایسے میں ہر آتے جاتے شخص کی نظر چادر میں لپٹے اس سفید فام شخص پر ضرور پڑتی تھی جو ہاتھ پھیلائے ان سے ریزگاری کا مطالبہ کرتا تھا۔ کچھ سخی اس کی جھولی میں کچھ ڈال دیتے تھے اور کچھ اسے نظر انداز کرتے ہوئے گزر جاتے تھے۔ وہ سفید فام شخص کسی سے گلہ شکوہ کیے بغیر ریزگاری دینے اور نہ دینے والوں کا شکریہ ادا کر دیتا تھا۔

میں نے تقریباً ایک گھنٹہ اس شخص کا مشاہدہ کیا کہ وہ شخص آخر کیا کرے گا لیکن وہ سفید فام وہاں بیٹھ کر صرف ہاتھ پھیلاتا رہا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ شخص وہاں سے ریزگاری اٹھا کر اپنی چادر کو وہیں چھوڑ کر ایک طرف چلنے لگا۔ میری رگِ تجسس نے کہا کہ تنویر میاں دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کرتا ہے؛ اس کے پاس خاصی رقم جمع ہے یقیناً یہ کوئی چرس یا شراب لینے ہی جائے گا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر وہ شخص ایک اور گلی میں مڑ گیا۔ میں بھی کچھ فاصلہ رکھ کر اس کہ پیچھے چلتا رہا۔ بالآخر وہ شخص ایک گھر کے سامنے جا کر رک گیا اور دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد انتہائی مفلوک الحال قسم کا ایک پاکستانی شخص بڑی پر امید نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوا باہر نکل آیا۔ اس سفید فام شخص نے اپنی تمام ریزگاری اس پاکستانی شخص کو دی اور واپس چل دیا۔
اندر وہ شخص اس دکاندار کو وہی ریزگاری دے رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ اس ہفتے کا وہ فی الحال اتنا ہی کرایہ اکٹھا کر سکا ہے، باقی وہ چند روز میں ادا کر دے گا مگر وہ دکاندار بہت ہی غصیلے انداز میں بات کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اگر کرایہ اس ہفتے کے آخر تک نہ ملا تو اسے یہ گھر خالی کرنا ہوگا۔

اب میں عجیب صورتحال کا شکار کہ کیا وہ پاکستانی شخص کچھ نشہ آور اشیاء اس شخص کو بیچتا ہے یہ کیا؟ مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں نے اس سفید فام شخص کو روکنا چاہا مگر وہ گلی میں موڑ مڑ چکا تھا۔ میں ابھی اسی شش و پنج میں تھا کہ وہی مفلوک الحال شخص جیکٹ پہن کر ایک سمت چلنے لگا۔ میں بھی اس کے پیچھے چلنے لگا۔ تھوڑی دور جا کر وہ ایک دکان میں چلا گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اس دکان میں چلا گیا۔ اندر وہ شخص اس دکاندار کو وہی ریزگاری دے رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ اس ہفتے کا وہ فی الحال اتنا ہی کرایہ اکٹھا کر سکا ہے، باقی وہ چند روز میں ادا کر دے گا مگر وہ دکاندار بہت ہی غصیلے انداز میں بات کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اگر کرایہ اس ہفتے کے آخر تک نہ ملا تو اسے یہ گھر خالی کرنا ہوگا۔ وہ شخص منت سماجت کر کے اس سے کچھ مہلت لے کر باہر نکلا تو میں نے اسے جا پکڑا اور شام سے لے کر اب تک کی ساری روداد سنائی۔

https://www.youtube.com/watch?v=vt7hXpqRFqA

وہ شخص اس لمحے مجھے ایسے لگا جیسے شرم کے مارے گر جائے گا۔ میرے کچھ حوصلہ دینے پر وہ مجھے بتانے  لگا کہ میں آج سے دو سال پہلے یہاں سٹوڈنٹ آیا تھا۔ ویزہ ختم ہوا تو آگے پیچھے دوڑنے لگا۔ کبھی نوکری مل جاتی کبھی نہ ملتی۔ کچھ عرصہ مانچسٹر پکاڈلی میں بے گھر افراد کے ساتھ بھی ٹینٹوں میں گزارا۔ پاکستان جا نہیں سکتا کیونکہ جو قرضہ لے کر آیا تھا وہی پورا نہیں ہوا۔ رشتہ داروں کے طعنے اور بہن بھائیوں کی فرمائشوں سے ڈر لگتا ہے۔ نوکری ملتی نہیں اور فاقوں کی نوبت ہے۔ ایسے میں یہ شخص دن میں ایک بار جتنی بھی ریزگاری جمع ہوتی ہے، مجھے دے جاتا ہے اور یہی میری روٹی کا سبب ہے۔
مانچسٹر میں بہت سے لوگوں سے رابطہ کیا، نوکری کا بھی کہا لیکن لوگ مدد نہیں کرتے اور جو نوکری دیتے ہیں وہ پانچ پاؤنڈ میں پورا دن کام لیتے ہیں۔ اس لمحے مجھے اس سفید فام شخص کا رتبہ بہت بلند لگا جو صرف انسانیت کے تحت اس شخص کی مدد کر رہا تھا

میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کسی کاروباری شخصیت سے مدد کا مطالبہ نہیں کیا۔ کہنے لگا مانچسٹر میں بہت سے لوگوں سے رابطہ کیا، نوکری کا بھی کہا لیکن لوگ مدد نہیں کرتے اور جو نوکری دیتے ہیں وہ پانچ پاؤنڈ میں پورا دن کام لیتے ہیں۔ اس لمحے مجھے اس سفید فام شخص کا رتبہ بہت بلند لگا جو صرف انسانیت کے تحت اس شخص کی مدد کر رہا تھا جسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے کل کچھ ملے گا یا نہیں اور وہ اپنے جیسے ایک دوسرے مجبور شخص کی مدد کر رہا ہے۔

اب یہاں میرے ذہن میں بہت سے سوالات آ رہے تھے۔ پاکستانی کمیونٹی جو کہ اپنی دریا دلی کی وجہ سے جانی جاتی ہے، ہم مساجد میں تو ہر ہفتے دس پاؤنڈ دیتے ہیں لیکن ہمارے اردگرد بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو ہماری مدد کی ضرورت ہے، ہم ان کو تلاش نہیں کرتے۔ ہم مسلمان اور جنتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ سفید فام شخص انسانیت میں ہم سے بازی لے گیا۔

مسعود نامی یہ شخص اور پال نامی سفید فام شخص برطانوی معاشرے کی حقیقت ہیں۔ میں یہ کہانی کبھی نہ لکھتا مگر آج جب مسعود کے انتقال کا معلوم ہوا تو رہ نہ سکا۔ مسعود کو دو سال پہلے ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا اور دو سال پاکستان میں بھی مدد نہ ملنے پرقرضے میں دبا یہ شخص آخری سفر پر روانہ ہو گیا۔ پال (فرضی نام) سے اکثر ملاقات ہوتی ہے اور اب بھی وہ اپنی انسانیت پر قائم سڑکوں پر رہتے ہوئے بھی مجھ سے بہتر انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔ مسائل ہر جگہ ہیں ہمیں اپنے اردگرد کے لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ پاکستان سے زیادہ شاید ہماری مدد کی ضرورت کسی کو یہاں ہو۔