Get Alerts

ہائے رے مہنگائی: ' اس وقت مہنگائی کو جائز قرار دینے والے 90 فیصد بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں'

ہائے رے مہنگائی: ' اس وقت مہنگائی کو جائز قرار دینے والے 90 فیصد بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں'


آج کل ہمارا پیارا وطن پاکستان مہنگائی کی شدید لپیٹ میں ہے، اس ناقابل برداشت مہنگائی نے غریب اور مڈل کلاس طبقے کی چیخیں نکال دی ہیں اس سب کے باوجود حکمران جماعت کے حامی اس مہنگائی کو مختلف دلیلوں سے ڈیفینڈ کر رہے ہیں۔ تو میں نے سوچا کیو نا ان فکشن پر مبنی دلیلوں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔


نمبر ایک: یاد رہے اس مہنگائی کو ڈیفینڈ کرنے والوں میں 95% لوگ وہ ہے جو اس وقت بیرون ملک مقیم ہے اور وہ پاکستان کی مہنگائی کو اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور باقی وہ لوگ ہیں جن کا اچھا خاصا بزنس ہے یا تگڑی نوکری لگی ہوئی ہے۔ یہ سب دلیل دیتے ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہوئی ہے جن میں اوورسیز پاکستانی تو یہاں تک فرماتے ہے کہ ہمارے ہاں فلا چیز اتنے ڈالر کی ہو گئی تو فلاں چیز اتنے کی لیکن ان لوگوں کے پاس اتنا علم نہیں کہ یہ جان سکے کہ پاکستان کی قوت خرید کتنی ہے اور یورپی ملکوں کی کتنی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کینیڈا میں پیٹرول کا ایک لیٹر 140 روپے ہے تو وہاں کے مزدور کی تنخواہ بھی 60 ہزار پاکستانی روپے سے اوپر ہوگی جبکہ پاکستان میں مزدور کی تنخواہ صرف 17 ہزار روپے فی مہینہ ہے۔ تو یہ بیچارہ پیٹرول 123 روپے لیٹر کیسے خریدے؟ جبکہ اس نے گھر کے باقی خرچ بھی انہی پیسوں سے پورا کرنا ہے۔ اللہ کے بندوں باقی ملکوں کی قوت خرید اور معیشت ہم سے مظبوط ہے اسلیے انہیں مہنگائی اتنی محسوس نہیں ہوتی جبکہ پاکستان میں لوگوں کی تنخواہ 10 فیصد بڑھی ہے جبکہ مہنگائی 2 سو فیصد جس سے سارا توازن بگڑ گیا ہے۔


نمبر دوسرا: اوروسیز سپورٹران کے بعد آتے ہے پاکستان کے سپورٹر جو اچھی خاصی پوسٹوں پر براجمان ہیں اسلیے انہیں مہنگائی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ صاحب فرماتے ہیں کہ مہنگائی تو ہر دور میں ہوتی ہے پھر ریٹ لسٹ بتانے لگ جاتے ہے کہ مشرف کے دور میں چینی 30 روپے تھی جبکہ نواز شریف کے دور میں 55 روپے ہو گئی اسی طرح گھی 95 روپے فی کلو تھا جبکہ نواز کے دور میں 165 روپے ہوگیا اسی طرح باقی تمام چیزیں بھی گنواتے ہیں، تو ان کیلیے عرض ہے کہ بے شک ہر دور میں مہنگائی ہوتی ہے لیکن پہلے توازن کے ساتھ ہوتی تھی اور لوگوں کی تنخواہیں بھی اسی حساب سے بڑھتی تھی۔ مشرف اور نواز دور میں 8 سال کا فرق ہے لیکن چیزیں صرف 50 سے 60 روپے تک مہنگی ہوئی جبکہ خان صاحب کے دور میں وہی چینی جو 55 روپے کی تھی آج 110 روپے مل رہی ہے اور جو گھی 165 روپے تھا وہ اب 350 روپے تک مل رہا ہے اور پیٹرول 68 روپے فی لیٹر تھا جبکہ آج 123 روپے فی لیٹر ہے۔ مطلب اس دور میں مہنگائی نان اسٹاپ ہوئی ہے جبکہ لوگوں کی قوت خرید بلکل وہی کی وہی کھڑی ہے۔


تیسرا نمبر: اس کیٹیگری میں حکومتی وزیر اور خود وزیر اعظم صاحب آتے ہیں جو پرس کانفرنس میں فرماتے ہیں کہ دیکھوں اس سال ریکارڈ موٹر سائیکلوں کی سیل ہوئی ہے تو بتاو کہا ہے مہنگائی؟ اور کچھ وزیر فرماتے ہیں کہ اس سال رکارڈ کاروں کی سیل ہوئی ہے اسلیے ملک میں مہنگائی نہیں۔ بندہ پوچھے کہ کاروں اور موٹر سائیکلوں کا غریب عوام سے کیا تعلق؟


خدا کیلیے ایسی بھونڈی دلیلیں دے کر غریب عوام کا مذاق نہ اڑائیں کیونکہ پاکستان کے اور باقی دنیا کے مسائل یکسر مختلف ہیں۔ ہو سکے تو اس مہنگائی کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ حکومت کوئی ایکشن لے اور غریب کو سکھ کا سانس آئے۔ اللہ پاک پاکستان کا حامی و ناصر ہو اور اس پر اپنا خصوصی کرم فرمائے۔ آمین

کالم نگار، فری لانس جرنلسٹ اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں۔ ٹویٹر اکاونٹ: @Farhan_Speaks_