ریاست کے اندر ریاست کب تک؟

ریاست کے اندر ریاست کب تک؟
ایڈورڈ برنیز پراپیگینڈے کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ برنیز نے پچھلی صدی کے اوائل میں انسانی لاشعور اور انسانی خواہشات کو منظم پراپیگینڈے کے تابع لا کر پہلے کارپوریٹ ورلڈ کی فلاسفی کو دنیا پر تھوپتے ہوئے انسانی دماغ کو پہلے مصنوعات کا تابع بنایا اور پھر منظم سیاسی پراپیگینڈے کی بنیاد رکھتے ہوئے ریاست اور عوام کے رشتے کو مصنوعات بیچنے اور اس کے خریداروں کا رشتہ بنا ڈالا۔ برنیز نے رائے عامہ کو مخصوص سیاسی ایجنڈوں کے تابع کرنے اور ریاست میں ڈیپ سٹیٹ کے کردار کو لاشعوری طور پر سماج میں قبولیت کی سند دلوائی۔



رائے عامہ کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کے لئے پراپیگینڈے کا استعمال ہمارے ہاں بھی روز اول سے ہی کیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ حالات ہی دیکھ لیجئے؛ سب کو معلوم ہے کہ ملک میں اس وقت سیاسی داؤ پیچ سیاسی کھلاڑیوں کے بجائے ڈیپ سٹیٹ کی جانب سے کھیلے جا رہے ہیں۔ آئین کے مطابق اگلے عام انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے لیکن ہر ممکن طریقے سے آئندہ عام انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ویسے بھی آئین اور دستور ہمارے ہاں وہ موم کے سانچے ہیں جنہیں طاقتور اور بااثر قوتیں باآسانی اپنی مرضی کے مطابق جب اور جہاں چاہیں موڑ سکتی ہیں۔ کہنے کو تو وطن عزیز میں آئین ہے، دستور ہے اور پارلیمان آئین و قانون بنانے کا ادارہ لیکن درحقیقت ہمارے ہاں دستور پر بلڈوزر چلانے اور آئین کو قدموں تلے روندنے کا رواج عام بھی ہے اور قابل قبول بھی ہے۔ وطن عزیز میں پچاس کی دہائی سے یہ کھیل جاری و ساری ہے۔



یہ بھی پڑھیے: بری خبریں آ رہی ہیں، انتخابات نہیں ہونے والے







17 وزرائے اعظم آئے اور اسی دستور اور آئین کے موجود ہوتے ہوئے بھی گھر بھیج دیے گئے۔ جب منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا جاتا رہا اس وقت عدلیہ اور بیوروکریسی سر تسلیم خم کرتے ہوئے آئین و قانون میں سے جمہوریت اور عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کے جواز ڈھونڈتے رہے۔ جسٹس منیر کی بدروح نے عدلیہ پر ایسا سایہ چھوڑا کہ آج تک عدل کا میزان اس کے سائے کے زیر اثر دکھائی دیتا ہے۔ بیوروکریسی کو دیکھیے تو وہاں قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کی ریت برقرار رکھتے ہوئے "یس سر" کی عادت اور ہر طالع آزما کی فرمانبرداری کی ریت نظر آتی ہے۔



سیاستدانوں کو پس پشت قوتوں کی بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں جبکہ پس پشت قوتیں ان تمام طبقات میں سے چند ایک کی خدمات حاصل کر کے سیاسی انجینئرنگ اور مینوفیکچرڈ رائے عامہ کی تشکیل دے کر حکومتوں اور چہروں کو بدلتی رہتی ہیں۔ اس اقتدار اور قومی پالیسیوں پر اجارہ داری کی جنگ نے وطن عزیز کو ایک جمود میں جکڑ رکھا ہے۔ پاکستان میں آج بھی پس پشت قوتوں اور اداروں کا گٹھ جوڑ نظریہ ضرورت کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ منصف عدل کے ایوانوں میں بیٹھے سیاسی عمل کو تاک تاک کر نشانہ بناتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ پس پشت قوتیں پردے کے پیچھے سے ڈوریاں ہلاتے ہوئے عوام پر اپنی مرضی کے عمران خان جیسے اپاہج رہنما مسلط کرنا چاہتی ہیں جو ان کے فراہم کردہ سیاسی وینٹیلیٹر کے دم پر بقا کی سانسیں لے اور ڈکٹیشن نہ لینے کی صورت میں اس سے یہ سیاسی وینٹیلیٹر کھینچ کر باآسانی سیاسی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ جو سیاسی مہرے آج پس پشت قوتوں کی ایما پر جمہوری اقدار کو تباہ کرتے ہوئے اقتدار کے مسند پر بیٹھنا چاہتے ہیں انہیں تاریخ کے سبق کی سمجھ نہیں آئی اور جلد ہی یہ مہرے ملکی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کے کارندوں کے طور پر جانے جائیں گے جن کا انجام اصغر خان اور گجرات کے چودھریوں جیسا ہو گا۔



وطن عزیز میں احتساب، ملک دشمنی اور کرپشن کے نام پر مخالفین کو زیر کرنے کا مکروہ عمل روز اول سے پراپیگینڈہ کے دم پر قائم ہے اور شاید ہمیشہ ہی جاری بھی رہے گا۔ یہ کھیل عوام کے مفاد کو بنیاد بنا کر اسٹیبلشمنٹ، ملا اور دانشور نوسرباز رچاتے ہیں۔ ان نوسربازوں کا یہ اتحاد ہر ممکن طریقے سے وطن کے مستقبل تک کو بیچ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ یہ نیٹ ورک اسٹیبلشمنٹ، سرکاری منشیوں، صحافیوں، دانشوروں، مفاد پرست سیاستدانوں، بزنس مین اور مولویوں پر مشتمل ہے۔ ان کا یہ اتحاد جسے ڈیپ سٹیٹ یعنی ریاست کے اندر ایک اور ریاست بھی کہا جا سکتا ہے اس قدر حد تک خطرناک اور مضبوط ہے کہ وطن عزیز میں آج تک کوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرنے پایا۔ کوئی ایک بھی عوامی رہنما یا سیاسی جماعت کبھی مذہبی شدت پسندوں کے تسلط سے ریاستی بیانیے کو نہ آزاد کروا پائی۔ کوئی ایک بھی عوامی رہنما اس وطن کو ڈالر سپانسرڈ جہاد میں جھونکے جانے اور نسل در نسل نوجوانوں کو نفرت و تعصب کے اندھیروں سے آزاد کروانے کی ہمت نہ کر پایا۔ یہ گروہ مملکت پاکستان کو اول روز سے پراپیگینڈے، مذہب، وطن پرستی اور مغربی طاقتوں کی سازشوں کی کہانیاں گھڑ کر اس وطن کے عوام کو اپنے پیچھے لگا کر اپ مقاصد حاصل کرتا چلا آیا ہے۔

عماد ظفر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


اس گروہ کا طریقہ واردارت انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ گروہ سب سے پہلے مذہب پر اجارہ داری قائم کرتا ہے اور اس کام میں مولوی، ذاکرین، پیر بابے اور نام نہاد علمائے دین ان کے کام آتے ہیں۔ گلی گلی پھیلا ہوا مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر عبادت گاہوں کا یہ نیٹ ورک عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتا ہے کہ ان کا اپنا اپنا فرقہ یا مسلک یا مذہب خطرے میں ہے اور صرف مذہبی چورن فروش ہی اس خطرے کے تدارک کے لئے کچھ کر سکتے ہیں۔ روز و شب ہمہ وقت ایک ہی پراپیگینڈہ سن سن کر جب ایک پوری نسل تیار ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں کافر کافر یا مذہبی نرگسیت پسندی کا لگایا گیا بیج ایک تناور درخت بن چکا ہوتا ہے اور پھر باقی ساری زندگی یہ نسل اسی مذہبی تعصب اور شدت پسندی کے تعصب کی سوچ سے زندگی کے ہر معاملے کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔



اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وطن عزیز میں پی ایچ ڈی کرنے والے افراد بھی علم و آگہی کی نئی منازل کے کھوج کی تحقیق کرنے کی بجائے مسواک کی اہمیت یا ڈارون اور تھیوری آف بنگ بینگ کو غلط ثابت کرنے میں توانائیاں ضائع کر دیتے ہیں۔ عام سطحی ذہن کا آدمی تو خیر پراپیگینڈے کی وجہ سے مرنے مارنے سے کم بات پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ گروہ عوام کو مذہبی منافرت، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم رکھ کر باآسانی اپنے اور اپنے آقاؤں کے وسیع مفادات کا تحفظ کرتا رہتا ہے۔ وارداتیوں کا دوسرا طبقہ ان صحافیوں اور دانشوروں پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے مالی تحفظات کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ یہ صحافی اور دانشور پراپیگینڈہ کے دم پر سطحی ذہن کے حامل افراد کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہتے ہیں کہ مذہب اور وطن دونوں ہی خطرے میں ہیں اور صرف اور صرف بندوقوں والے ہی وطن اور مذہب کو بچا سکتے ہیں۔ ہر دور کے سیاسی رہنما یا آمروں کے تلوے چاٹنے ان سے مراعات حاصل کرنے کے بعد یہ وارداتیے کمال ڈھٹائی سے اخلاقیات اور انصاف کے بھاشن دیتے عوام کو پراپیگینڈے کے زیر اثر رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

اس گروہ کا تیسرا اہم رکن سرمایہ داروں، وڈیروں اور پراپرٹی ڈیلرز پر مبنی ہے۔ یہ گروہ ہر ممکن طریقے سے قوانین کی دھجیاں بکھیر کر سادہ لوح افراد سے فراڈ کر کے ناجائز دولت کماتا ہے اور پھر اسی لوٹے ہوئے دھن میں سے کچھ حصہ خیرات یا فلاحی اداروں پر لگا کر پارسائی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرتا ہے۔ ملک ریاض کی مثال اس ضمن میں ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ یہ طبقہ ہر سیاستدان اور آمر کو "خوش" رکھتا ہے۔ اور اکثر مارشل لا کے آنے کی راہ دیکھتا پایا جاتا ہے۔ اس گروہ کا ایک اور حصہ چند ریٹائرڈ جرنیلوں اور سرکاری افسران پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ قانون اور اداروں کی رٹ کے نام پر اپنی اپنی جیبیں گرم کرتے ہوئے وقت کے حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہوئے ان کے مخالفین کا ہر ممکن طریقے سے استحصال کرتا ہے، مارشل لاؤں کو آئینی و قانونی جواز فراہم کرتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد قبر میں پیر لٹکانے والی عمر میں بھی ٹیکنو کریٹ حکومت اور مارشل لا کے خواب دیکھتا ہے، تا کہ پھر سے کوئی جگاڑ لگا کر مزید کالا دھن یا آسائشیں حاصل کی جا سکیں۔

اس ریاست کے اندر ایک ریاست کو قائم و دائم رکھنے میں مفاد پرست سیاستدانوں کا بھی کلیدی کردار ہے۔ یہ سیاستدان ہوا کا رخ دیکھتے ہی اپنی اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں لگاتے اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ڈیپ سٹیٹ کی اصل کمان "پس پشت قوتوں" کے پاس ہے۔ جب بھی پس پشت قوتوں کو کسی سے خطرہ درپیش ہو تو ملاؤں کے زریعے کافر و مرتد کے فتوے، صحافی و دانوشوروں کے زریعے کرپشن اور احتساب کی الف لیلوی داستانیں سنوا کر مخالف کو کمزور کیا جاتا ہے اور پھر سرکاری منشیوں کے دم پر انہیں پچھاڑ دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی کام نہ بنے تو حب الوطنی کا چورن بیچتے ہوئے سیاسی بساط لپیٹ کر قصہ ہی تمام کر دیا جاتا ہے۔



ایوب سے لے کر مشرف تک یہ قوتیں مارشل لا کے ذریعے اور کبھی مختلف انجینئرڈ تحریکوں کے ذریعے، کبھی سامنے سے اور کبھی چھپ کر عوام پر حکمرانی کرتی ہی چلی آئی ہیں۔ اس سارے کھیل میں ان سب قوتوں نے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے اور وطن عزیز کو شدت پسندی، جہالت اور غربت کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ عوام خود بھی ان وارداتیوں کے ہاتھوں لٹ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی بلکہ ہر ممکن طریقے سے ان قوتوں کے لگائے گئے ہر نئے تماشے کو دیکھ دیکھ کر تالیاں بجاتی ہے۔ یہ گروہ پہلے صرف شدت پسند اذہان پیدا کرتے تھے تاکہ مذہب اور قومیت پرستی پر اجارہ داری برقرار رکھی جا سکے لیکن اب ان گروہوں نے دولے شاہ کے چوہوں کی مانند ایک ایسی نسل بھی تیار کرنی شروع کر دی ہے جو حقائق و واقعات سے نابلد، تاریخ سے ناآشنا صرف اور صرف دیوانوں کی مانند گول دائروں میں گھومنے کو آزادی اور اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں۔

یہ نسل احتساب کے چورن کو خریدتے ہوئے صدق دل سے اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ صرف سیاستدان اور سیاسی جماعتیں کرپٹ ہیں جبکہ باقی تمام ادارے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ شدت پسند نسل تیار کرنے کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اب اس دولے شاہ کی نسل کو تیار کرنے کا خمیازہ شاید ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہو گا کیونکہ نہ تو یہ قوتیں تماشہ لگانے سے باز آتی دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی تماش بین وارداتیوں کا تماشہ دیکھنے کی لت سے چھٹکارہ حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست کی مختلف قوتیں اگر ایک دوسرے کو کمزور کرتے ہوئے صرف اپنے اپنے گروہی مفادات کا خیال رکھنا چھوڑ کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالیں تووطن عزیز کا مستبل بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ریاست کے اندر ایک اور ریاست کا کردار ادا کرنے والی ڈیپ سٹیٹ کو عوام کے مینڈیٹ کو پراپیگنڈہ اور دیگر طریقوں سے ہائی جیک کرنے کے عمل کو ختم کرنا ہو گا۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی بھی فرد واحد یا ادارہ معاشرے کے تمام مسائل ایک رات، ایک مہینے یا چند سالوں میں حل کر دے۔ مسائل کا حل ایک ارتقائی عمل ہے اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی وقت کی بھٹی سے نسلوں کو گزر کر ترقی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ محض نعروں یا پراپیگنڈوں کے سہارے اگر تبدیلی آتی تو لیبیا، مصر یا عراق میں آج دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ رومان پروری اور آئیڈیلزم اس وقت تک تعمیری ہوتے ہیں جب تک کہ وہ ہالوسینیشن میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ احتساب کے ذریعے اربوں ڈالرز کی واپسی اور راتوں رات قومی خزانہ بھر جانا یا پس پشت قوتوں کے اتارے گئے مہروں کی تبدیلی کے نعروں کو حقیقت سمجھنا ہالوسینیشن کی کیفیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسی صورت ترقی کر سکتا ہے جب اس میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے لیکن ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ بھی۔ دوسرا راستہ انقلاب اور تبدیلی کے نام پر استعمال ہو کر اپنے آپ کو پرفریب خوابوں میں مبتلا رکھنے کا ہے۔ سماجی اور سیاسی ڈھانچہ کسی بھی قسم کے شارٹ کٹ سے نہ تو تشکیل پاتا ہے اور نہ ہی مضبوط ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات پر اثر انداز ہونے والے پراپیگنڈہ اور خوابوں کے سوداگروں سے بچ کر اور ریاست کے اندر ایک اور ریاست کے تصور کو ختم کر کے صرف جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے ذریعے ہی وطن عزیز میں آنے والے کل کے بہتر ہونے کا تصور کیا جا سکتا ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔