جامعہ عبدالولی خان مردان کے مشال خان کو قتل ہوئے 3 سال بیت گئے، مشال خان کی تیسری برسی آج منائی جا رہی ہے۔ شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ کے طالبعلم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم نے بیدردی سے تشدد کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
مشال خان کو 13 اپریل 2017 میں قتل کیا گیا جس کے بعد اس کیس میں 61 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔ مشال قتل کیس میں 57 ملزمان کا فیصلہ ہری پور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے 7 فروری 2018 کو سنایا تھا۔ ہری پور اے ٹی سی نے 26 ملزمان کو بری کیا تھا جبکہ مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25،25 سال قید اور 25 ملزمان کو 4،4 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
کیس میں روپوش ملزمان صابر، اظہار، اسد اور عارف کی گرفتاری بعد میں عمل میں لائی گئی تھی۔ جن کا فیصلہ پشاور کی انسداد دہشتگردی عدالت نے 21 مارچ 2019 کو سنایا تھا، جہاں 2 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ 2 ملزمان کیخلاف شواہد نہ ہونے پر بری کر دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ 1994 میں پیدا ہونے والے مشال خان عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبعلم تھے، جنہیں 13 اپریل 2017 میں جامعہ کی حدود میں مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔ ان پر مبینہ طور پر فیس بک پر مذہب مخالف مواد نشر کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کے دوران کہا تھا کہ ہمیں توہین مذہب کے حوالے سے مشال کے خلاف سے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
مشال کے ایک دوست کا کہنا تھا کہ ان پر حملے کی وجہ جامعہ کی انتظامیہ کے خلاف تنقید تھی۔
یاد رہے کی جب مشال خان کا قتل ہوا تھا تو ان کی ماں نے کہا تھا کہ میرے بیٹے کی لاش مجھے اس حالت میں ملی کہ میرے بچے کے جسم کا کوئی حصہ زخموں کے بغیر نہیں تھا کہ جہاں میں بوسہ دے سکتی۔