عبدالولی خان یونیورسٹی: مشال خان سے پہلے اور مشال خان کے بعد

عبدالولی خان یونیورسٹی: مشال خان سے پہلے اور مشال خان کے بعد
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، عوامی نیشنل پارٹی کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ اے این پی کی تعلیمی میدان میں انقلابی اقدامات کو بہت زیادہ پذیرائی ملی تھی۔ کارنامہ بھی کچھ اس طرح کا تھا کہ باچا خان اور خان ولی خان کے پیروکار انہی کے نقش قدم پر چلنے لگے۔ خدائی خدمتگار تحریک کا پہلا کارنامہ پشتون بلٹ میں عصری علوم کے لئے آزاد سکولز یا مدرسہ کا قیام تھا کیوںکہ باچاخان کو اس بات کا ادراک تھا کہ جدید تعلیم کے بغیرانگریز سے آزادی اور بعد میں ایک باوقار قوم کے لئے صنعتی ماحول میں ترقی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع پیدا کرنا اصل میں اس سوچ کے تسلسل کی ایک کڑی تھی۔ تاہم، بہترین عمارتیں کھڑی کرنے کے بعد بدترین کرپشن کے ذریعے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ کیڈرز میں نااہل لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی اصل روح برباد کر دی گئی۔

https://www.youtube.com/watch?v=lK83zKPmyFI

گذشتہ سال عدم تشدد اور دلیل سے بات کرنے والی شخصیت خان عبدالولی خان کے نام پر بننے والی یونیورسٹی میں جرنلزم کے طالبعلم مشال خان قتل کا واقعہ پیش آیا۔ یہ حادثہ تا قیامت سیکولر سوچ رکھنے والی پختون قوم کے ماتھے پر بدنما داغ بن کر رہے گا۔ یونیورسٹی کے طلبہ سے جب میں نے گذشتہ روز مشال خان قتل سے پہلے والے حالات کے بارے میں پوچھا تو وہ گویا ہوئے کہ اس سے پہلے یونیورسٹی کسی خان کا حجرہ تھا۔ رولز ریگولیشن فالو کرنا غیب، بزدلی اور کمزوری سمجھی جاتیں تھیں کیوںکہ ایک سال پہلے سیاسی جماعتیں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتی تھیں۔ یہی سٹوڈنٹس سیاست دانوں کے ہاتھوں اپنے ہی مستقبل کو تباہ و برباد کررہے تھے، حتیٰ کہ سمسٹر سسٹم میں کلاسس نہ لینا اور بعد میں مڈٹرم اور سالانہ امتحان میں ان طلبہ سیاستدانوں کا اچھے نمبروں سے پاس ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ وہ جمہوری حق کے نام پر سیاسی غنڈہ گردی تھی جس کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے سپورٹ حاصل تھی۔ ہاتھا پائی، گالم گلوچ، پبلک املاک کا ستیاناس کرنا اور کلاسز کا بائیکاٹ معمول تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو، مولانا سید ابوالعلیٰ مودودی، مفتی محمود، باچاخان کے نام پر طلبہ سیاست کرنے والوں نے ان لیڈرز کی روحوں کو بھی تڑپایا ہوا ہوگا کیوںکہ ان صاحبان نے تو ہمیشہ عقل کی سیاست کا درس دیا تھا۔ ان میں صرف بھٹو صاحب تھوڑے سے جارح مزاج تھے اور اسی وجہ سے وہ بھی سیاسی دوستوں کو کھو بیٹھے تھے۔

اب مشال خان قتل کے بعد کی یونیورسٹی کا جائزہ لینا بھی بے حد ضروری ہو چکا ہے۔ گذشتہ سمسٹر میں نے اسی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں کلاسیں لی تھیں۔

میری ہی کلاس کے چند سٹوڈنٹس انٹرنشپ ڈھونڈنے کے لئے اسلام آباد کے کسی چینل گئے تھے۔ ان کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا گیا کہ وہ ولی خان یونیورسٹی کے زیر تعلیم جوان ہیں جہاں پر مشال خان واقعہ ظہور پذیر ہوا تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ ان جوانوں کے ساتھ یہ سراسر زیادتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ جیسے ہی یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو اچانک اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کسی تعلیمی ادارے میں نہیں بلکہ وزیرستان کے کسی گاؤں میں داخل ہو رہے ہیں۔ مرکزی دروازے پر پولیس کی بھاری نفری اور چند گز کے فاصلے پر ایک اور چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ آج کی یہ چابکدست مردان پولیس ایک سال پہلے بھی اس شہر میں موجود تھی جنہوں نے کمال مہارت سے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو صفائی کے ساتھ مشال خان قتل کیس میں بچایا تھا اور بہت سے بے گناہ طالبعلوں کے کریئر کو برباد کیا۔ اس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے جب میں اس کیس کے متعلق مؤقف لینے کے لئے پیغام بھیجا تھا اس نے فوراً معذرت کا جواب دیا تھا۔



یونیورسٹی انتظامیہ نے پراکٹرز کو زبانی احکامات جاری کیے ہیں کہ کلاس فیلوز لڑکے اور لڑکی کے ایک ساتھ بیٹھنے پر پابندی ہے اور اس غیرتحریری آرڈر کو نہ ماننے والے سزائیں بھگتتے ہیں۔ اگرچہ بعض جگہوں پر اخلاقیات پر زور دینے والے تو بڑے بڑے خبرداری کے بینرز بھی لگائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی میل اور فی میل پر ہزاروں روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا جا چکا ہے جس کی تھوڑی بہت تفصیل میرے پاس موجود ہے اور ان طلبہ کو میں جانتا ہوں جن پر بیس ہزار، دس ہزار تک جرمانے لگ گئے ہیں۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں ایک پراکٹر کو صرف اس لئے رکھا گیا ہے کہ جرمانے لگاتا رہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت عبدالولی خان یونیورسٹی شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اس قسم کے اوچھے ہتکھنڈوں کی مدد سے خسارے کو کم کرنے کی ناکام کوشش انتظامیہ کر رہی ہے۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ یونیورسٹی کے شاپنگ مال میں جرنلزم ڈپارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات بیٹھے تھے۔ اس دوران یونیورسٹی کے پراکٹر صاحب بھی وارد ہو گئے اور فرمایا کہ تم لوگ یہاں پر ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کیا کر رہے ہو تو اس دوران لڑکی نے ان کو کہا کہ میں یونیورسٹی کی طالبہ ہوں اور آپ لوگوں کو چاہیے کہ مورل پولیسنگ سے زیادہ ریسرچ اور جدید کورسز پر توجہ دے دیں تاکہ سٹوڈنٹس کی ذہنی لیول کو تقویت مل سکے۔ اس کے علاوہ منیجمنٹ سائنس کی ایک لڑکی جب اپنے کلاس فیلو کے ساتھ اپنے ہی ڈپارٹمنٹ کے لان میں بیٹھی تھی تو پراکٹر نے ان کے والد کو فون کر کے شکایت لگا دی کہ آپ کی بیٹی نامحرم کے ساتھ مٹر گشتیاں کرتی ہیں۔ ایک پختون خاندان کے لئے یہ بات مر مٹنے کی ہوتی ہے لیکن خوش قسمتی سے لڑکی کا والد تعلیم یافتہ تھا۔ وہاں سے انہوں نے جواب دیا کہ پھر تم لوگ مخلوط تعلیم بند کیوں نہیں کرتے تو پراکٹر صاحب نے فون ہی بند کر دیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=1hM6bhOXO3E

اگر مرد خواتین کے ساتھ بیٹھنے پر پابندی ہے تو ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں میل اور فیمیل اساتذہ کوایک ہی ساتھ میٹنگز اور کورسز ڈسکشن کا حق پھر کس نے دے رکھا ہے؟ اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ مشرقی روایات بھی ہیں مگر یونیورسٹی کے طلبہ تو میچور لوگ ہوتے ہیں، اس قسم کی پابندیاں وہاں کی تنگ نظر سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔

صوبائی حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ ولی خان یونیورسٹی کے کلاس فور ملازمین سے لے کر پروفیسرز تک ہر ایک کے ساتھ ماہر نفیسات اور ماہر تعلیم بٹھا کر اس عظیم درس گاہ کو تباہی سے بچایا جائے کیوںکہ اس کی بلڈنگ پر اربوں روپے اخراجات آئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایکسٹرنل آڈٹ ٹیم کو بھی ہائر کرنا چاہیے اور تمام اخراجات کا آڈٹ کرنا بہت ہی ضروری ہو چکا ہے۔ کیوںکہ بدترین مالی بے ضابطگیوں کا قوی امکان ہے۔ آڈٹ اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں پر وائس چانسلر سمیت تمام لاکھوں کی تنخواہیں لینے والوں کو معلوم ہو سکے کہ عوامی خزانے کو لوٹنے والوں کا احتساب کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=rhzTNZJsoKw

میرٹ کی دھجیاں اڑانے والوں کو ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ ایک ایسی یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں جس میں ایک وقت میں لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے قانونی طور پر آزاد ہیں جہاں پر سٹوڈنٹس کو جدید تعلیم کے ساتھ ملکی و غیر ملکی سیاست بھی پڑھائی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے یونیورسٹی میں بہت ہی کم ایسے اساتذہ ہوںگے جن کی ذہنی صلاحیتیں آنے والی نسل کو روشن فکر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ ظلم کی انتہا تو جرنلزم کے طلبہ کے ساتھ ہوئی تھی کیوںکہ ایک ایسی شخصیت کو ڈپارٹمنٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا جس نے کسی یونیورسٹی سے باقاعدہ جرنلزم کی ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں حاصل کی بلکہ کسی دوسرے مضمون میں ماسٹرز کا امتحان پاس کیا تھا۔ یہ تو حالت تھی میرٹ اور اخلاقی جرأت کی۔

عظیم پشتون سیاستدان ولی خان جنہوں نے Facts are Facts جیسی شاہ کار تحقیقی کتاب لکھ کر آزادی کے دشمنوں کو قوم کے سامنے دلیل کے ساتھ لائےاور بدترین آمر جنرل ضیاء بھی جس کو نہ جھکا سکا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ولی خان کی پارٹی سے ایک یونیورسٹی نہ سنبھل سکی اور جو وائس چانسلر انہوں نے مقرر کیا تھا وہ آج بھی کرپشن کیسز میں عدالتوں کے چکر لگاتا ہے۔ یہ سب کچھ اے این پی کے منہ پر طمانچے ہیں۔

اگر یونیورسٹی میں حالات جوں کے توں رہے تو تنگ نظر اور ریسرچ سے عاری سوچ کے اساتذہ بغیر دلیل کے بات کرنے اور پھر منوانے والے انتہاپسند طلبہ معاشرے کو دینگے اگرماحول کو بدلا نہ گیا تو یہ یونیورسٹی پہلے سے گھٹن زدہ معاشرے کو مزید بگاڑ کی طرف لے جائے گی۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کو اس کی ذات کی طرح بنانا ہوگا جو دوسرے کی تنقید کو کھلے دل و دماغ سے برداشت کر سکے۔ یونیورسٹی کے ماحول کو فرینڈلی بنانا ہو گا تاکہ آنے والی نسلیں تاریک فکری سے روشن خیالی کی طرف سفر کر سکیں اور ایک دوسرے کی رائے، سیاسی سوچ، نظریے کی قدر کر سکیں۔

تعصب کی انتہا توعمران خان کی حکومت میں چند قانون سازوں نے کر دی جن کو ولی خان کے نام سے چڑ ہے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو گرانٹ تک نہیں ملتی۔

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔