کرونا کی وبا کہاں سے آئی؟ چین میں کرونا وائرس پر تحقیق کی اشاعت حکومت کی اجازت سے مشروط

کرونا کی وبا کہاں سے آئی؟ چین میں کرونا وائرس پر تحقیق کی اشاعت حکومت کی اجازت سے مشروط
کرونا وائرس ایک طبی معاملہ ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مذہبی اور سب سے بڑھ کر سیاسی معاملہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں اسے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں بھی یہ مذہبی اور قدامت پسند  حلقوں کی جانب سے مغرب اور یہود و ہنود کے خلاف انکے بیانیوں کی آبیاری کے کام آرہا ہے۔ تاہم یہ معاملہ صرف ان دو ملکوں کے مابین ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہی کچھ  مل رہا ہے۔ ہر ملک اور قوم صنف مخالف سے متعلق اپنے نظریات، تعصبات اور خدشات کو کرونا کی پیٹھ پر لاد کر سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ اب یہ ہی دیکھ لیجئے،  دنیا کی دو بڑی معاشی اور فوجی طاقتوں چین اور امریکا کے درمیان بھی یہ وائرس ایک سیاسی جنگ کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن اس  سب کا  افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس سیاسی جنگ میں کرونا وائرس کے بارے میں تحقیق کا عمل بھی اب متاثر ہونے لگا ہے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر عالمی سطح پر یہی رویہ رہا تو اس پر اسرار اور خطرناک وبا کو سمجھنے کے عمل میں دیر ہونے کا خدشہ ہے جس سے اس کی تباہیوں میں کئی گناہ اضافہ ہوجائے گا۔

اس کے باوجود خبر ہے کہ چین کی ژی حکومت نے کرونا وائرس کے آغاز اور اسکے پھیلاؤ سے متعلق چین کے طبی و تحقیقی مراکز میں کسی بھی قسم کی تحقیق کو اپنی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق چین کی دو معتبر یونیورسٹیوں نے اپنی ویب سائٹس پر چینی حکومت کا حکم نامہ شائع کیا تھا جس میں اس پابندی کا اعلامیہ تھا۔ تاہم کچھ گھنٹوں کے بعد اسے ویب سائٹس سے ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس اعلامئے میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس کے آغاز اور اسکے پھیلاؤ  سے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیق تب تک شائع نہیں ہوگی جب تک کہ اسکے نتائج کی چینی حکام اجازت نہ دے دیں۔ 

سی این این نے بتایا ہے کہ چین میں موجود محققین نے انہیں بتایا ہے کہ چینی حکومت وائرس کے موضوع کو سیاسی طور پر حساس قرار دے چکی ہے اور یہ معاملہ بھیاسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اس کا مطلب ہے کہ حقائق چھپانے کے امکانات پیدا ہوں گے اور اس وائرس سے متعلق جاننے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

سی این این کے مطابق جب انہوں نے چینی حکام سے اسی نوٹیفکیشن کے نیچے دیئے گئے نمبرز پر اس بارے میں رابطہ کیا تو اس بات کی تصدیق کی گئی کہ یہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے تاہم یہ کہا گیا کہ یہ محکمے کی اندرونی اطلاع کے لئے تھا اسے عام نہیں کیا جانا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل چینی حکومت  پر کرونا وائرس سے متعلق حقائق اور معلومات چھپانے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ دسمبر 2019 میں وائرس کو سب سے پہلے رپورٹ کرنے والے ڈاکٹر لی کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے دھمکا کر چپ کرا دیا گیا تھا۔ جس کے بعد حال ہی میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ وائرس امریکا سے آئے امریکی فوجی ووہان لائے تھے۔

کرونا وائرس کے بارے میں پہلے کہا گیا تھا کہ یہ چمگادڑ کا گوشت کھانے کی وجہ سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے تاہم اسکے بعد چینی حکام نے اس دعویٰ کی بھی نفی کی تھی۔