گلگت بلتستان: لاک ڈاؤن سے حالات قابو آئے ہیں لیکن راشن پہنچانے کا بندوبست نہیں کیا گیا

گلگت بلتستان: لاک ڈاؤن سے حالات قابو آئے ہیں لیکن راشن پہنچانے کا بندوبست نہیں کیا گیا
جب بھی لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں جون ایلیا سے منسوب ایک کہاوت یاد آتی ہے، پتہ نہیں کہ جون نے ایسا کہا بھی ہے یا نہیں لیکن ایسی بات عقل مندوں کے لیے ایک نصیحت سے کم نہیں ہے۔ جون ایلیا نے کہا کہ جن کو پڑھنا چاہیے وہ لکھتے ہیں۔ میں جب بھی کچھ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ بات یاد کر کے قلم چھوڑ دیتا ہوں اور کتاب لے کر کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر ہمارے معاشرے میں پڑھنے کا رجحان بہت ہی کم ہے، جس کی وجہ سے کبھی کسی کتاب کو مشکل سے مکمل ختم کر پاتا ہوں۔ کبھی کبھار دوستوں سے لی ہوئی کتابیں آدھی پڑھے بغیر واپس کردیتا ہوں۔ اس میں ایک طرف میری سستی اور کاہلی شامل ہے تو دوسری طرف گھر سے دوری کی وجہ سے دل ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ جی کرتا ہے کچھ پڑھنے سے بہتر ہے کہ فارغ وقت سوتے میں گزارا جائے۔ یوں نہ کوئی ناراض ہوگا اور نہ ہی کسی سے نئی دشمنی مول لی جائے گی۔

بہرحال سستی اور مجبوریوں کے باوجود کبھی کبھار قلم اٹھائے بغیر رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ارسطو کے مطابق انسان معاشرتی حیوان ہے، معاشرے میں جو کچھ بھی ہوتا آ رہا ہے، انسان اس سے اثر لیتا ہے اور سیکھتا رہتا ہے۔ چاہے وہ کسی کام میں جسمانی طور پہ شامل نہ بھی ہو لیکن اس کے اثرات کسی نہ کسی طرح اس تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اب اصل موضوع کی جانب آتے ہیں، کرونا وائرس نے چین کے شہر ووہان میں ہزاروں انسانوں کو اپنے لپیٹ میں لیا تو ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ یہاں کی حکومت اس وقت تک سنجیدہ نظر نہیں آئی جب تک کراچی میں ایران سے آئے ہوئے ایک شخص میں کرونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔ پاکستان میں پہلے مریض کی تشخیص کے بعد سندھ حکومت اور گلگت بلتستان حکومت نے ہوش کے ناخن لیے۔ لیکن اسی عرصے میں ایران گئے ہوئے گلگت بلتستان کے بہت سارے زائرین تفتان پہنچ چکے تھے جن کو وہاں قرنطینہ کے نام پر ایک عجیب صورتحال میں رکھا گیا۔ سینکڑوں زائرین کو ایک ساتھ رکھنے کی وجہ سے صحت مند زائرین کو بھی وائرس لگنے کا خطرہ لاحق ہو گیا اور یوں انہیں کسی نہ کسی طرح گلگت بلتستان پہنچا کر قرنطینہ کر دیا گیا۔ اس دوران گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے تھوڑی سی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ہوٹلوں کو خالی کر کے زائرین کے لیے جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔

اس ہنگامی صورتحال میں گلگت بلتستان حکومت نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہدایات کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے طبی عملے کو بغیر کسی حفاظتی انتظام کے ڈیوٹی پر مامور کیا جس کی وجہ سے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض خالق حقیقی سے جا ملے اور ہم ایک ہونہار ڈاکٹر سے محروم ہو گئے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کا پہلا نشانہ بنے۔ اس نقصان کے بعد ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے مقامی حکومت کو طبی عملے کے لئے فوری حفاظتی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا تو ڈاکٹر اعجاز ایوب کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر راتوں رات گلگت سے نگر تبادلہ کیا گیا۔ بعد ازاں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور محکمہ صحت کے درمیان مذاکرات کے بعد ڈاکٹر اعجاز ایوب اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کے مؤقف کو جائز قرار دیکر حفاظتی کٹس کی فراہمی اور انتظامات کرنے کی یقین دہانی کی گئی۔

حفاظتی کٹس نہ ہونے اور ڈاکٹرز برادری کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے حکومت چین کو خط لکھ دیا جس کے بعد چین نے حفاظتی کٹس، N95 ماسک اور وینٹی لیٹر سمیت دیگر ضروریات کا سامان گلگت بلتستان کی حکومت کے حوالے کیا، جس پر گلگت بلتستان کے باسی چین کے مشکور و ممنون ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض کے بعد نگر سے تعلق رکھنے والے ایکسرے ٹیکنیشن ملک اششدر کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے خود بیمار ہوکر ہسپتال پہنچ گئے اور چار دن بعد اس فانی جہان سے کوچ کر گئے۔ ملک اششدر کے موت کے پیچھے بھی حفاظتی انتظامات نہ ہونا ہے۔ ایک دلچسپ بات اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس وقت تک گلگت بلتستان میں روزانہ کے بنیاد پہ 10 سے لیکر 17 مشتبہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے گلگت بلتستان میں ایک ٹیسٹ سینٹر ہونے کی وجہ سے بلتستان سے نمونے اسلام آباد بھیجے جاتے ہیں جس کی وجہ سے نتائج بہت دیر سے موصول ہوتے ہیں جو کہ خطرناک عمل ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ملک اششدر کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لیے نمونے 24 مارچ کو کیا گیا جبکہ 29 مارچ کو اس کے انتقال کے بعد اس کے نتائج محکمہ صحت نگر کے حوالہ کیا گیا۔

وزیر اطلاعات شمس میر کے مطابق بلتستان میں باہر سے آئے ہوئے مریضوں کے علاوہ کرونا وائرس مقامی لوگوں میں بھی منتقل ہوا ہے جبکہ محکمہ صحت بلتستان نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ مقامی سطح پر کوئی ٹرانسمیشن نہیں ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان میں صرف ایک کرونا وائرس ٹیسٹ سنٹر ہونے کی وجہ سے آنے والے آیام میں صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا میں گلگت بلتستان کے نوجوان حکومت پہ دباؤ ڈالنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں کہ فوری طور پر مزید ٹیسٹ سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے۔

کچھ دن پہلے اخبار میں دو کالم خبر لگی، جس میں وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت بلتستان میں ٹیسٹ سنٹرز کے اضافے کا عندیہ دیا، جو کہ نیک شگون ہے۔ اخباری ذرائع کے مطابق بلتستان میں ایک سنٹر کھولا گیا ہے اور محکمہ صحت گلگت بلتستان کے فوکل پرسن برائے کرونا وائرس ڈاکٹر شاہ زمان نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ گلگت سنٹر میں روزانہ کے بنیاد پہ 50 سے زیادہ مریضوں کا ٹیسٹ کیا جائے گا مگر اس حوالے سے گلگت بلتستان کے سینئر صحافی دوست مطمئن نہیں ہیں۔

اس وقت گلگت بلتستان میں مکمل لاک ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے حالات کسی حد تک کنٹرول ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف لاک ڈاؤن کو دو ہفتے گزر چکے ہیں مگر حکومت نے غریبوں تک راشن پہنچانے میں جس سست روی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے مزدور اور محنت کش طبقہ بہت زیادہ مسائل کا شکار ہے۔

مصنف سے ٹوئٹر پر @InayatRAbdali رابطہ کیا جاسکتا ہے۔