گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کیسے قابو آگیا ؟

گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کیسے قابو آگیا ؟
بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق ہسپانوی فاتحین جنوبی امریکہ میں مہلک بیماریاں ساتھ لائے۔1350 میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا، جس نے آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کر دیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوبونک طاعون سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق کسان طبقے سے تھا۔

امریکہ کی 15ویں صدی کے آخر میں نوآبادیات نے اتنے لوگوں کو ہلاک کیا جو شاید دنیا کی آب و ہوا کو تبدیل کرنے کا باعث بنا ہو۔ برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یورپی توسیع کے نتیجے میں اس خطے کی آبادی ایک سو سال میں صرف پانچ یا چھ ملین رہ گئی ہے۔۔ سب سے بڑا قاتل چیچک تھا دیگر مہلک بیماریوں میں خسرہ ، انفلوئنزا، بوبونک طاعون، ملیریا، ڈیپتھیریا، ٹائفس اور ہیضہ شامل تھے۔ 

 زرد بخار اور غلاموں کی بغاوتوں کے نتیجے میں ہیٹی میں فرانسیسی حکمرانی کا خاتمہ ہوا زرد بخار کا اثر تباہ کن تھا، اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً پچاس ہزار فوجی، افسر، ڈاکٹر اور ملاح ہلاک ہوگئے تھے۔

 1641 میں ایک وبا شمالی چین پہنچی، جس سے کچھ علاقوں میں بیس سے چالیس فیصد کے درمیان آبادی ہلاک ہوگئی۔ طاعون اس وقت پھیلا جب خشک سالی اور ٹڈی دل کا بھی سامنا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے وبا سے مرنے والے افراد کی لاشوں کو کھانا شروع کردیا تھا۔ یہ بحران شاید بوبونک طاعون اور ملیریا کے امتزاج کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ شمال سے آنے والے حملہ آور اپنے ساتھ لائے ہوں۔

قارئین کرام اس سے پہلے کے کالم میں ،میں نے "عالمی وبا اور گلگت بلتستان" کے عنوان سے لکھا تھا. اس کے بعد دوستوں نے کہا کہ کرونا وائرس پہ مزید لکھنے کی ضرورت ہے۔ دوست احباب محسوس کر رہے ہیں کہ یہ عالمی وبا نے جہاں اقوام عالم کو سوچنے پہ مجبور کیا ہے اور ریاستیں اپنے ترجیحات پہ نظر ثانی کرنے کا عندیہ دے رہی ہیں وہاں گلگت بلتستان میں بہت کم عرصے میں اس وبائی مرض کو پسپا ہونا ایک حیران کن بات ہے۔ آج کی اس نشت میں ہم اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کرینگے۔

قارئین کرام کسی بھی نقصان سے پہلے چیزوں کی نشاندپی کرنا ہر ذمہ دار شہری کا فرض ہوتا ہے. آج تک گگت بلتستان میں کل 1644 افراد سے کرونا وائرس ٹیسٹ کےلیے نمونہ حاصل کیا گیا تھا جس میں ابھی تک کی رپورٹ کے مطابق 234 افراد میں کرونا وائرس پایا گیا تھا جن میں 175 مریض صحتیاب ہوکر گھروں کو چلے گئے ہیں جبکہ 56 مریض آج بھی زیر علاج ہیں جبکہ ایک ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف سمیت استور سے تعلق رکھنے والا ایک شخص موت کا شکار ہوگیا ہے۔ 81 نمونے اب تک ٹیسٹ نہیں ہوئے ہیں جن کا رزلٹ آنا ابھی باقی ہے۔ابھی تک صحت یاب ہونے کا شرح 74.7 فیصد جبکہ اموات  1.28 ہے۔

قارئین کرام!

گلگت بلتستان کی آبادی تقریبا بیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اب تک جتنے بھی ٹیسٹ ہوگیے ہیں ان میں شہروں سے آنے والے افراد شامل ہیں۔

گلگت بلتستان میں مقامی سطح پہ صرف ان لوگوں کا نمونے حاصل کیے گیے جو مریضوں کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے۔عام عوام میں آج تک ٹیسٹ کرنے اور نمونے لینے کی کوشش نہیں کی گئی ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں قرنطینہ سنٹروں میں موجود افراد بھی آج تک ٹیسٹ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن گلگت بلتستان نے بھی یہ مطالبہ کردیا ہے کہ عام لوگوں سے بھی نمونے لیے جائیں ورنہ بعد میں حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک اس وبا کو روکنے میں مکمل ناکام ہوگئے ہیں اس صورتحال میں اسلام آباد سرکار کے تعاون کے بغیر گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کو شکست دینے کا خواب صرف اس بنیاد پہ شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے کہ اس وائرس میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ یہاں کے مضبوط قوم مدافعت رکھنے والے افراد کو زیادہ دیر بیمار رکھ سکیں۔جب بھی اس حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تو زیادہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں کے لوگوں کی قوتِ مدافعت مضبوط ہے اس لیے جلدی لوگ صحت یاب ہو رہے ہیں۔

میں امید کے ساتھ ساتھ خدشات کا اظہار بھی کر رہا ہوں امید اس بات کی ہے کہ کرونا وائرس کو شکست دیکر گھروں کو جانے والے مکمل صحتیاب اور دوبارہ ٹیسٹ رپورٹ منفی آنے کے بعد گئے ہوں گے اور خدشہ اس چیز کا ہے کہ گلگت بلتستان میں ٹیسٹ بہت محدود سطح تک ہوگئے ہیں۔اگر چودہ سو اٹھاسی افراد کے ٹیسٹ پہ 234 افراد متاثر پائے جاتے ہیں اور 81 افراد کے نتائج آنا باقی ہے تو یہ تعداد ابادی کی تناسب سے بہت زیادہ ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹیسٹ نہ ہونے یا شہروں سے پرائیویٹ گاڑیوں میں آنے والے افراد قرنطینہ سے بچ نکلنے کے چکر میں وائرس لیکر نہ پہنچے ہوں۔ 

گلگت بلتستان کے بہت سارے افراد دیگر شہروں میں قرنطینہ سے ہوکر بھی آئے ہونگے لیکن ان کو قرنطینہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اگر کوئی پنجاب میں چودہ دن قرنطینہ میں بیٹھ کے آتا ہے تو گلگت بلتستان پہنچانے تک وہ ہر قسم کے لوگوں سے ملاقات کرتے ہوئے یہاں پہنچ جاتا ہے اس دورانیے میں وائرس کا شکار کسی سے ملاقات ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے اس لیے گلگت بلتستان آنے والے ہر شخص کو قرنطینہ کرکے مکمل ٹیسٹ کے بعد ہی گھروں کو جانے کی اجازت دی جائیں۔

آج کے دن بھی گلگت بلتستان کے مختلف ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر انتظامی عملہ بغیر حفاظتی انتظامات کے کام کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان حکومت کو ٹیسٹ کا دائرہ بڑھاتے ہوئے گلگت بلتستان کے تمام ہسپتالوں کے ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل اسٹاف اور دیگر عملے کا کرونا ٹیسٹ کرانا چاہیے تاکہ کوئی اس وائرس سے متاثر نہ ہو کیونکہ کراچی، ملتان بلوچستان اور پشاور میں متعدد ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کرونا وائرس کا شکار ہوگیے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے میں چودہ دن لگ سکتے ہیں اس لیے کرونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں اور گلگت بلتستان کے تمام ہسپتالوں میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کے لیے انتظامات کیے جائیں اس وائرس سے متاثرہ کوئی شخص نہ رہ جائیں۔

آسٹریلیا سمیت دیگر یورپی  ممالک کے حوالے سے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے اعدادوشمار کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ گلگت بلتستان میں ابھی زیادہ ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اصل تعداد سامنے لانے میں مشکلات ہیں جبکہ پاکستان کے مختلف سیاسی جماعتوں اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس وائرس کے مذید پھیلنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔  وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور کے مطابق گزشتہ دنوں ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں تعداد لاکھوں تک جانے کے امکانات ہیں اس تمام تر صورتحال میں گلگت بلتستان حکومت اور عوام کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ حالات مکمل کنٹرول میں آنے تک احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل پیرا ہو۔

اس تمام صورتحال کے باوجود ایک چیز بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ لاک ڈاؤن  کے تین ہفتے مکمل ہونے کو ہیں مگر گلگت بلتستان میں صرف ضلع گلگت کے چند جگہوں کے علاؤہ کسی علاقے یا گاؤں میں ضرور مندوں کو سرکاری طور پہ راشن تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوگئی ہے۔ این جی آوز پہ بھروسہ کرنے اور ان کو اس صورتحال میں لوگوں کی مدد کےلیے احکامات دینے کے بجائے گلگت بلتستان حکومت کو سخت فیصلے لیتے ہوئے انتظامیہ کو پابند کرنا چاہیے تھا کہ لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے ہی غریبوں میں راشن تقسیم کی جائے مگر آج تیسرے ہفتے کے گزرنے کے بعد بھی غریبوں کو راشن فراہمی کا عمل شروع نہیں کیا گیا ہے۔

عمران خان حکومت کی جانب سے احساس سکیم پہ نظر رکھنے کے بجائے گلگت بلتستان حکومت کو فوری طور پہ راشن تقسیم کےلیے احکامات جاری کرنا چاہیے۔

احساس پروگرام میں رجسٹریشن کےلیے بھی گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں مسائل پیش آسکتے ہیں محنت کش اور انتہائی ضرور مند افراد آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اس پیکچ سے بھی محروم رہ سکتے ہیں۔ میں خود ایسے کئی افراد سے مل چکا ہوں جو مستحق تو ہے مگر ان کو اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں ہے۔

 قارئین کرام کرونا وائرس سے جہاں تعلیمی ادارے بند ہوگئے ہیں وہاں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی نے بھی ان لائن پڑھائی کےلیے حکمت عملی کی کوشش کی ہے جو کہ خوش آئند ہے مگر گگت بلتستان کے دارالخلافہ گلگت میں انٹرنیٹ کی حالت بدتر ہے اس صورتحال میں گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں موجود طلبا و طالبات سے کے آئی یو اور بلتستان یونیورسٹی کے پورٹل تک رسائی کی امید لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آن لائن سیکھنے کا یہ عمل اگر لازمی قرار دیا گیا ہے تو گلگت بلتستان کے دور دراز کے طلبا وطالبات اس سے بہت زیادہ متاثر ہونگے اس لیے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کے زمہ داران کو سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان بھر کے مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے گلگت بلتستان کے طلبا وطالبات بھی پریشان حال ہے اس حوالے سے بھی گلگت بلتستان حکومت کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے بات کرنی چاہیے اس کے ساتھ ساتھ تمام ٹیلی مواصلات کے کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ گلگت بلتستان میں 

3جی  اور 4 جی چلائے۔ حیرت اس بات پہ ہے کہ ایس سی او یہاں انٹرنیٹ سروس دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا ہے مگر پھر بھی اسلام آباد نے ایس سی او کو سبسیڈی دینے کا اعلان کرکیا ہے. کرونا سے بچ گیا تو مورخ یہ بھی لکھے گا کہ ایس سی او نامی ایک نیٹ کچھوے کی رفتار سے سست انٹرنیٹ سروس دیکر کچھوے کی چال چلا کے سبسیڈی حاصل کرتا رہا۔

قارئین کرام!

گگت بلتستان حکومت نے گزشتہ دنوں کرفیو کا اعلان کرلیا مگر۔۔۔۔

گلگت بلتستان حکومت کو اپنے اعلانات پہ عملدرآمد کےلیے ہر جگہ قانونی طریقے اختیار کرنا چاہیے۔ حکومتی اعلانات کی دھجیاں اڑانے والا بااثر طبقہ جب چاہیے لاک ڈاؤن سمیت کرفیو کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتا ہے اسلیے قانون کو ہر وقت حرکت میں آنا چاہیے۔ غریبوں کےلیے الگ اور ان حلقوں کےلیے الگ قوانین نہیں ہونے چاہیں جو حکومت کو پریشر گروپس کے ذریعے اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے سے روکتے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پہ اجتماعات کرتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے ہر فرد سے امید ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کرونا وائرس کو شکست دینے میں  کردار ادا کرینگے جو اس عمل میں خلل ڈالے گا وہ سب سے بڑا مجرم ہوگا۔

مصنف سے ٹوئٹر پر @InayatRAbdali رابطہ کیا جاسکتا ہے۔