سپریم کورٹ کے ججوں میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ ستمبر میں جب قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنیں گے تو سب کے خلاف ریفرنس بھجوا دیں گے۔ اسی خوف کے پیش نظر قاضی صاحب کے خلاف کیوریٹیو ریویو ابھی تک خارج نہیں کیا گیا۔ ججوں کو دوسرا خوف یہ ہے کہ جو گروپ بھی جیتے گا وہ دوسرے گروپ والے ججوں کو نوکریوں سے نکلوا دے گا۔ یہ کہنا ہے قانون دان فیصل صدیقی کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل پر سپریم کورٹ کا حکم امتناعی جاری کرنا آئین کے خلاف نہیں ہے، ماضی میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ اصل بحث یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بنچ نے پارلیمنٹ کے بل کو مسترد کر کے جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک جنگ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ جس میں حکمران اشرافیہ شامل ہے، کے مابین ہے اور دوسری جنگ سپریم کورٹ کے اندر چل رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے دو دھڑوں میں سے کوئی ایک جیتے گا اور اس کا ادارے کو نقصان ہو گا۔
مجھے نہیں لگتا چیف جسٹس اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہیں، ان کے پاس صرف ایک جج کی اکثریت ہے جو زیادہ پائیدار نہیں ہے۔ جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس بندیال میں فرق یہ ہے کہ افتخار چودھری خوف زدہ نہیں تھے، ازخود نوٹس اور باقی بڑے کیسز میں انہوں نے بڑے بڑے بنچ بنائے، سب کو ان میں شامل کیا۔ 1997 اور 2023 کے حالات میں بھی بہت فرق ہے۔ 1997 میں اختلافی ججوں کو سپورٹ کرنے کے لئے ایک مضبوط حکومت موجود تھی جبکہ موجودہ حکومت کمزور ہے، پارلیمنٹ کمزور ہے اس کے مقابلے میں اپوزیشن طاقتور ہے۔ جب متوازی طور پر دو سپریم کورٹس بن جاتی ہیں تو پھر تیسری طاقت کو راستہ مل جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان کو چھ قسم کی غیر یقینی صورت حال درپیش ہے؛ سیاسی، معاشی، سکیورٹی، آئینی، عدالتی اور بیانیے کی۔ یہ چھ حالتیں پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی اکٹھی نہیں ہوئیں۔ جب یہ اکٹھی ہو جاتی ہیں تو نظام کے بریک ڈاؤن ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان اور انڈونیشیا میں بہت حد تک مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہمارے دو بارڈرز پر دو کولڈ وارز چل رہی ہیں جنہوں نے ہمیں کھپا دیا ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے فیصلہ سنایا ہے مگر مقدمے خارج نہیں کیے، ان مقدموں کے تحت سپریم کورٹ اور بھی احکامات جاری کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی قابل غور ہے کہ توہین کے مقدمے سپریم کورٹ کس کس کے خلاف چلائیں گے۔ چیف جسٹس اپنے فیصلے سے ڈرا دھمکا کر اپنے آرڈرز پر عمل درآمد نہیں کروا پائیں گے۔ چیف جسٹس سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ مشتمل ہی آٹھ ججز پر ہے، وہ باقی سات ججز کو مکمل طور پر اگنور کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس سمجھتے ہیں کہ وہ یہ جنگ جیت سکتے ہیں اسی لئے انہوں نے بازی لگا دی ہے۔
اختلافی ججوں کو چیف جسٹس کے بنچ بنانے پر اختلاف تھا۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ سپریم کورٹ کا عوام کے سامنے تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ یہ شفاف نہیں ہے۔ باقی 90 دن میں انتخابات کروانے پر تو کسی جج نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے تو درحقیقت پی ٹی آئی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کو چاہئیے 90 روز میں الیکشن کروانے والے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔
قانون دان حیدر وحید نے کہا کہ اگرچہ چیف جسٹس اپنی مرضی کا بنچ بنانے کا اختیار رکھتے ہیں مگر جس طرح آج کا بنچ بنا اس سے بھی ججز کا اختلاف واضح ہو گیا۔ میں آج کے سٹے آرڈر کو غیر معمولی سمجھتا ہوں کیونکہ عام طور پر جب تک قانون بن نہیں جاتا تب تک سپریم کورٹ اس طرح کا حکم امتناعی جاری نہیں کرتی، صرف ایک مثال ماضی میں ایسی ملتی ہے۔ موجودہ جنگ کے فاتح جسٹس بندیال یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں ہوں گے، اس میں زیادہ فائدہ پرویز الہیٰ اور ان کے پرانے اتحادی اٹھائیں گے۔
اگر اس جنگ میں صرف شہباز شریف اور ان کی حکومت فریق ہوتی تو وہ تین رکنی بنچ کے سامنے ہی سر جھکا چکے ہوتے، شہباز شریف 5 سال کے لئے نااہل ہو کر سیاست سے باہر رہنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے نظر آتا ہے کہ اس لڑائی میں حکومت کے علاوہ تیسری طاقت بھی فریق ہے۔ ججوں، جرنیلوں اور سیاسی اشرافیہ کی لڑائی میں الیکشن نہ کروانے کی پالیسی پر عمل کر کے عوام کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ عوام کو مکمل طور پر باہر نکال کر یہ اختلافات ختم نہیں ہو سکیں گے۔ عوام کیا چاہتے ہیں، ہم ابھی بھی ان سے کچھ نہیں پوچھ رہے اور یہ سب سے بڑی غیر یقینی صورت حال ہے۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔
ٹیگز: اختلافی ججز, ازخود نوٹس, انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس, بنچوں کی تشکیل, پارلیمان اور عدلیہ آمنے سامنے, پاکستان اور انڈونیشیا میں مماثلت, پاکستانی عدلیہ, پنجاب میں الیکشن کروانے کا حکم, جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ, جسٹس قاضی فائز عیسیٰ, جوڈیشل ایکٹوازم, چیف جسٹس افتخار چودھری, چیف جسٹس سجاد علی شاہ, چیف جسٹس عمر عطاء بندیال, عدلیہ میں تقسیم, فوجی اسٹیبلشمنٹ