پاکستان کی پلاٹینم جوبلی کا سورج بروز 14 اگست، جبری تبدیلی مذہب کا شکار 39 بچیوں اور خواتین، توہین مذہب کے الزام میں گرفتار 14 افراد، اور توہین مذہب کے الزام میں مارے گئے 4 افراد کے لہو کی سُرخی کے ساتھ طلوع وغروب ہوگا۔
ادارہ برائے سماجی انصاف (سی ایس جے) اور جناب پیٹر جیکب کا شکریہ جو ان اعدادوشمار کو تمام تفصیلات کے ساتھ جمع کرتے ہیں اور ہر فورم پر ان مظالم اعدادوشمار سے جڑی گہری مذہبی تقسیم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں ملی آزادی کو 75 سال بیت گئے۔ ہر سال 14 اگست (یوم آزادی) آتا اور گزر جاتا ہے اور قوم کا ہر طبقہ معنوی اور حقیقی آزادی کے موضوع پر زبانی جمع خرچ کرکے کسی نئے موضوع کی طرف نکل پڑتا ہے۔ چلیں منہ زبانی ہی سہی مگر آزادی کے موضوع پر بات تو ہو جاتی ہے، مگر ہماری قوم نے کبھی اپنے گمشدہ 11 اگست کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔
ہمارا قومی 11 اگست گمشدہ ہے۔ یہ 11 اگست نہ کبھی آتا ہے، اور نہ ہم مناتے ہیں۔ یہ 11 اگست کا دن 1947ء سال میں ہی صرف ایک دفعہ آیا تھا، جب قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قانون ساز اسمبلی میں اپنی یادگار تقریر "آپ آزاد ہیں" کے ذریعے پاکستان کے عوام کو یگانگت اور برابری کا پیغام دیا تھا۔
ان کی تقریر نے ملک کے ہر شہری کے مذہبی عقائد کے احترام اور مذہبی آزادیوں کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی تھی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک نو آزاد ملک کے بانی، برصغیر کے متفقہ مسلم لیڈر اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے سربراہ کے طور پر ان کی تقریر کو پاکستان کے آئین کے سرنامہ پر لکھا جاتا، مگر ایسا ہوا نہیں۔
ایسا کیوں نہیں ہوا اور کیوں نہیں ہونے دیا گیا۔ جناب وجاہت مسعود اپنے کالم بعنوان ”کیا شبیر احمد عثمانی قائداعظم کے ساتھی تھے؟“ میں کچھ ایسے تحریر کرتے ہیں ” لگے ہاتھوں شبیر احمد عثمانی کے بارے میں ایک اور گواہی بھی لے لیجئے۔ عبیدالرحمن کراچی کے ایک معروف وکیل تھے۔ فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی خود ساختہ مجلس شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ اپنی خود نوشت ’یاد ہے سب ذرا ذرا‘ کے صفحہ 49 پر لکھتے ہیں، ”قائداعظم لکھنو تشریف لے گئے تو کسی نے اعتراض کیا کہ علما ایک مغرب زدہ آزاد خیال شخص کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے حکمت سے جواب دیا ’چند سال پہلے میں حج کے لئے بمبئی سے روانہ ہوا۔ جہاز ایک ہندو کمپنی کا تھا، جہاز کا کپتان انگریز تھا اور جہاز کا دیگر عملہ ہندو، یہودی اور مسیحی افراد پر مشتمل تھا۔ میں نے سوچا کہ اس مقدس سفر کے یہ وسائل ہیں۔ جب عرب کا ساحل قریب آیا، ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ایک عرب جہاز کی طرف آیا۔ اس (عرب) نے جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس کو اپنی رہنمائی میں سمندری پہاڑیوں، اتھلی آبی گذرگاہوں سے بچاتے ہوئے ساحل پر لنگر انداز کر دیا۔ بالکل ہم یہی کر رہے ہیں۔ ابھی تحریک جاری ہے، جدوجہد کا دور ہے، اس وقت جس قیادت کی ضرورت ہے وہ قائد اعظم میں موجود ہے۔ منزل تک پہنچانے کے لیے ان سے بہتر کوئی متبادل قیادت نہیں۔ منزل کے قریب ہم اپنا فرض ادا کریں گے“۔
شبیر احمد عثمانی نے یکم ستمبر 1947ء کو اخبارات میں ایک بیان جاری کیا جس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کی 20 روز قبل 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تقریر کا جواب تھا۔ قائداعظم اپنی تقریر میں فرما چکے تھے کہ ”وقت گزرنے کے ساتھ ( پاکستان میں) ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں، ریاست کے شہری کے طور پر“۔ چنانچہ سیاست کے غیر جمہوریت پسند حلقوں کے مہرے کے طور پر مولوی شبیر احمد عثمانی نے یہ گرہ لگانا بھی ضروری سمجھا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو“۔
قومی سطح پر کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ شبیر احمد عثمانی کون ہوتے ہیں، ایک نو آزاد ملک کی دستور ساز اسمبلی کے سربراہ کی تقریر کی نفی کرنے والے اور اپنے پراگندہ خیالات کی تشہیر کرنے والے اور ان کے ایسے بیانات کی بنیاد کیا ہے؟ آزادی کی 75ویں سالگرہ مناتے ہوئے ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ شبیر احمد عثمانی ان حلقوں کا عوامی چہرہ تھے جنہیں پاکستان میں اپنے گروہی مفادات کی فکر تھی اور جو ایک آزاد اور مستحکم پاکستان کو اپنے سفلی مفادات کے لئے خطرہ جانتے تھے۔
مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر بہت خوبصورت تحریریں، بعنوان ”100 سالہ پاکستان کیسا ہوگا“ پیش کی جا رہی ہیں۔ اگر پاکستان کے نوجوان، پاکستان کی آزادی کی تحریک کے اصل مشاہیر کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو انٹرنیٹ پر سرچ کریں کہ دیوان بہادر ستیا پرکاش سنگھا، آر اے گومسنڈ، ایف ای چوہدری، راج کماری امرت، چندو لال، سیسل ایڈورڈ گبن، الفریڈ پرشد، ایس ایس البرٹ، جوشوا فضل الٰہی، جناب جوگندر ناتھ منڈل، جناب جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلیس، اور سر ظفر اللہ خان کون تھے اور ایک آزاد وطن ' پاکستان' کے لئے ان کی کیا خدمات تھیں۔ جب اس تحقیق سے فارغ ہو جائیں تو پھر وہ تکلیف دہ حقائق پڑھیں کہ کس طرح ان مشاہیر کو مذہبی نفرت کا شکار بنا کر کیسی محسن کشی کی گئی۔
قائداعظم کی وفات اور پاکستان کی آزادی کے تمام قائدین سے جان چھڑانے کے بعد ملا-ملٹری الائنس نے 1956ء میں مملکت پاکستان کا نام تبدیل کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا گیا اور آئین کے سرنامہ میں غیر مسلم شہریوں کو درجہ دوم شہری بنا دینے کی بنیاد رکھی گئی اور آزادی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر پاکستان میں مذہبی تقسیم گہری اور اندھی نفرت اور عقیدت اپنے بدترین حال تک پہنچ چکی ہے۔
یہ سب اقدامات اس 11 اگست کی تقریر کا جواب تھے جو پاکستان کے استحکام کی اساس تھی۔ پاکستان کے چند بند دماغ اکثریتی مذہبی رہنماؤں اور مفادات پرست حلقوں نے اس ملک میں مذہبی اقلیتوں کے لئے جو سفاک ماحول بنا دیا ہے، اسے صرف اسی صورت ختم کیا جا سکتا ہے کہ 100 سالہ شاندار اور ترقی یافتہ پاکستان کے خواب دیکھنے اور اس خواب کو سچ کرنے والے نوجوان اپنے گمشدہ 11 اگست کو بازیاب کریں۔ اسے بھرپور طریقے سے منائیں اور قائداعظم کے پاکستان کو واپس لیں۔ جب تک 11 اگست نہیں آتا، 14 اگست منانے کی روح مضروب رہے گی۔ ہماری 75ویں 11 اگست کو ہمارا انتظار ہے.