مسلم لیگ ن نے 2013 میں ان گنت مشکلات، بحرانوں اور مسائل میں گھرے وطن عزیز کی کمان سنبھالی تو یہ کوئی آسان ٹاسک نہیں تھا لیکن نواز شریف صاحب کی قیادت میں ملک کو ان بحرانوں سے نکالنے اور وطن عزیز کو درست گامزن کرنے کا جذبہ موجود تھا۔
ملک جہاں معیشت، دہشتگردی، لوڈشیڈنگ اور دیگر بحرانوں کا شکار تھا وہیں مسلم لیگ ن کی حکومت کو ملک کے اندر رہ کر ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے بیرونی آلہ کاروں کا مقابلہ کرنے جیسے چیلنجز بھی درپیش تھے۔ یہ وہی عناصر تھے جنہوں نے سی پیک روکنے کیلئے چائنہ کے صدر کا دورہ تاخیر کا شکار کیا۔
یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ملک کے دارالحکومت پر دھاوا بولنے کیلیے 14 اگست کا انتخاب کیا جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ انہیں قوم نے تب بھی ریاست کے خلاف سازشیں کرتے دیکھا جب پوری قوم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی تھی۔
یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے ترقی کے راستے رکاوٹ ڈالنے کیلیے ملک کے دارالحکومت کو 126 دن یرغمال بنائے رکھا۔ ملک کے 3 مرتبہ منتخب وزیراعظم کے خلاف سازشوں میں بھی قوم نے انہی کرداروں کو کردار ادا کرتے دیکھا۔ یہی وہ سیاسی گروہ تھا جس نے 2018 کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چرا کر اقتدار پر قبضہ کیا۔
اقتدار پر قابض یہ حکمران ٹولہ جہاں پونے 4 سال سرکاری وسائل پر ڈاکے مارتا رہا وہیں سیاسی مخالفین کے خلاف سوائے جھوٹے مقدمات بنانے اور انتقامی کارروائیوں کے کچھ نہ کرتا دکھائی نہ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام بے حال اور ملک کنگال ہوتا گیا۔
ملک دیوالیہ ہوتا دیکھ کر اپوزیشن اتحاد نے اس نالائق ٹولے سے نجات دلانے کیلئے آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے سلیکٹڈ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی جو الحمدللہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی اس طرح وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت تشکیل پائی۔
اتحادی حکومت کے سامنے پونے 4 سال کی نااہلیوں اور نالائقیوں کے سبب مشکلات اور مسائل کے پہاڑ تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلیے سیاست کی بجائے ریاست بچانے کا فیصلہ کیا۔ ایک طرف حکومت سیاست کی پرواہ کیے بغیر سخت فیصلے لینے پر مجبور تھی۔
وہیں یہ انتشاری ٹولہ ایک مرتبہ پھر عوام کو گمراہ کرنے کیلیے میدان میں کود پڑا۔ ان سخت فیصلوں کا ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو شدید نقصان پہنچا مگر لیگی قیادت کی نیت صاف تھی انہوں نے ملک بچانے کیلیے سیاست کی قربانی دی لہٰذا ملک کی بہتری کی خاطر عوامی رائے کو من و عن تسلیم کیا گیا۔
ایک طرف مسلم لیگ ن کو ان فیصلوں کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑ رہی تھی تو دوسری طرف ملک کو ان مشکل فیصلوں کے ثمرات حاصل ہونا شروع گئے تھے جن کی خاطر یہ سب قربانی دینے کا فیصلہ کیا گیا مگر انتشاری ٹولے کو ملک میں استحکام ہضم نہیں ہو رہا تھا جس کے لیےانہوں نے ریاست مخالف بیانیہ بنانا شروع کیا۔
2014 میں 14 اگست کے دن اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کرنے والوں نے اس بار بھی 14 اگست کے دن کا انتخاب کیا مگر دو دن بعد تاریخ اور جگہ تبدیل کرکے جلسہ کیلیے 13 اگست لاہور کا انتخاب کیا گیا لیکن ایجنڈا وہی دنگا فساد انتشار اور ریاست مخالف بیانیے کے اردگرد ہی گھومتا رہا۔
قوم بالخصوص نوجوانوں کو ایسے ریاست مخالف آلہ کاروں کی اصلیت کو پہچان لینا چاہیے جو ملک کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے، جو ذاتی مقاصد کی تکمیل کیلیے کبھی اسلامی ٹچ کا سہارا لیتے ہیں۔
کبھی بیرونی سازش کا چورن بیچا جاتا ہے تو کبھی غلامی سے آزادی کے نعرے لگا کر قوم کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف اپنے ہی جعلی جھوٹے اور من گھڑت بیانیے پر نوجوانوں کو بیوقوف بنتا دیکھ کر بند کمروں میں بیٹھ کر قہقہے لگائے جاتے ہیں۔