برطانیہ میں عام انتخابات میں پولنگ کا وقت ختم ہونے اور ووٹوں کی گنتی پوری ہونے کے بعد نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انتخابات میں برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کی لیبر پارٹی کے درمیان سخت مقابلہ رہا۔
ایگزٹ پول کے مطابق ووٹوں کی گنتی کے بعد اب تک کل 650 میں سے 647 نشستوں کے ابتدائی نتائج کے مطابق کنزرویٹو کو 362، لیبر پارٹی کو 203 اور سکاٹش نیشنل پارٹی کو 48 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، آئی ٹی وی اور سکائے نیوز کے ایگزٹ پول کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہے اور وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
15 پاکستانی نژاد اپنی نشستوں پر کامیاب
برطانیہ کے عام انتخابات میں 15 پاکستانی نژاد امیدوار بھی کامیاب رہے۔ لیبر پارٹی کی پاکستانی نژاد ناز شاہ بریڈ فورڈ سے کامیاب ہوئیں، خالد محمود نے برمنگھم، یاسمین قریشی ساؤتھ بولٹن، افضل خان مانچسٹر کے علاقےگورٹن، طاہر علی برمنگھم کے ہال گرین، محمد یاسین بریڈ فورڈ شائر، عمران حسین بریڈ فورڈ ایسٹ، زارا سلطانہ کوونٹری ساؤتھ اور شبانہ محمود برمنگھم لیڈی ووڈ سے ایک بار پھر کامیاب ہوئیں۔
کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے پاکستانی نژاد نصرت غنی وئیلڈن، عمران احمد بیڈفورڈ شائر، ساجد جاوید برومس گرو، رحمان چشتی گلنگھم اور ثاقب بھٹی میریڈن سے کامیاب ہوئے۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں گذشتہ 5 سال کے دوران یہ تیسری مرتبہ عام انتخابات ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا اس سے نکل جانے کے حوالے سے 23 جون 2017 کو ریفرنڈم ہوا تھا جس میں بریگزٹ کے حق میں 52 فیصد جب کہ مخالفت میں 48 فیصد ووٹ پڑے تھے جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا، کیوں کہ وہ بریگزٹ کے مخالف تھے۔
ڈیوڈ کیمرون کے استعفے کے بعد برطانیہ کی وزیراعظم بننے والی ٹریزا مے نے جولائی میں بریگزٹ ڈیل کی پارلیمنٹ سے منظوری میں ناکامی کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا اور ان کے بعد بورس جانسن نے عہدہ سنبھالا تھا۔
وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی بورس جانسن نے کہا تھا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا تاہم وہ اس میں ناکام ہو چکے ہیں۔
برطانوی پارلیمنٹ دو مرتبہ بورس جانسن کے منصوبے کو ناکام بنا چکی ہے جس پر انہوں نے ملکہ برطانیہ سے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی منظوری بھی لی تھی جس کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
بعد ازاں یورپی یونین نے معاہدے کا وقت دیتے ہوئے 31 جنوری تک توسیع کی منظوری دی ہے جس کو بورس جانسن نے قبول کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا۔