سوشل میڈیا کی مدد سے میرے میکرونی کے کاروبار نے بہت ترقی کی۔۔

سوشل میڈیا کی مدد سے میرے میکرونی کے کاروبار نے بہت ترقی کی۔۔
ظہیر اور ان کی بہن اقرا کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ سے ہے لیکن اُن کے والد کاروبار کے سلسلے میں بہت پہلے اسلام آباد منتقل ہوچکے تھے۔ اُن کے والد اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی میں نوکری کررہے ہیں اور اُن کے جوان بچوں کو پڑھانا اُن کا خواب تھا مگر ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی معاشی صورتحال اور مہنگائی نے نہ صرف ان دونوں بچوں کے والدین کو پریشان کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ دونوں بھی پریشان تھے۔

اقرا اسلام آباد کے ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں بی ایس اکنامکس کی طالبہ ہے جبکہ ظہیر فاصلاتی نظام سے اپنا تعلیمی شوق پورا کررہے ہیں۔ دونوں بہن بھائیوں نے اس پریشانی کا حل نکالتے ہوئےکھانے پینے کی اشیاء کسی نئے انداز میں مارکیٹ میں بیچنے کا فیصلہ کیا۔ اس مد میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ کیا بہچاجائے۔

اس پریشانی کا حل بھی اقرا نے تلاش کیا اور انھوں نے رائے دی کہ میں چکن میکرونی بہت اچھے طریقے سے بناسکتی ہوں اس لئے اس کو آزمایا جائے جس پر سب گھر والوں نے اتفاق کیا۔ چکن میکرونی پر اتفاق ہونے کے بعد بڑا مسئلہ یہ تھا کہ والد صاحب نوکری کرتے ہیں اور اقرا اور ظہیر سکول جاتے ہیں تو پھر کس طرح ہم یہ کام کرسکتے ہیں اور ہمارے پاس تو اتنی رقم بھی نہیں کہ ہم کوئی سٹال خرید سکیں یا کرائے پر لے سکیں۔

اس پریشانی کا بھی حل نکالا گیا اور یہ فیصلہ ہوا شام کوگھر کی مہران گاڑی بھی فارغ ہوتی ہے اور شام کے بعد ہم کوئی کام بھی نہیں کرتے اس لئے اس بات پر اتفاق ہوا کہ شام کے بعد میکرونی کو کسی قریبی مارکیٹ میں گاڑی میں لے جاکر بیچا جائے گا۔



یہ کہانی نیا دور میڈیا کو ظہیر نے سنائی جو اسلام آباد کے کراچی کمپنی مارکیٹ میں اپنی مہران گاڑی پر ڈبے سجا کر میکرونی بیچتے ہیں۔ ظہیر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ پہلے وہ روزانہ دس سے پندرہ ڈبے بیچتے تھے اور ان کو مشکل سے 500 روپے بھی نہیں بچتے تھے، لیکن ایک دن اللہ نے ہم پر رحم کیا اور میں شام کے وقت یہاں گاہک کے انتظار میں تھا کہ ایک لڑکی آئی اور انھوں نے مجھ سے میرے کاروبار کے بارے میں پوچھا تو میں نے اُن کو تمام کہانی بتادی۔ اس کے بعد انھوں نے میری کئی تصویریں بنائی اور کہا کہ میں اس کو سوشل میڈیا پر لگاؤن گی اور تمھاری تشہیر کرونگی جس کے بعد وہ چلی گئی۔



اُن کے مطابق اس کے کچھ روز بعد میرے گاہگوں میں اضافہ ہوا اور جو بھی گاہگ آتا تھا تو یہی کہتا تھا کہ ہم نے اپ کی تصویریں سوشل میڈیا پر دیکھی تھیں اور کئی لوگوں نے میرا انٹرویو کیا اور مجھے سہارا دیا۔ ظہیر کے مطابق سوشل میڈیا پر تشہیر ہونے کے بعد میرے کاروبار میں اضافہ ہوا اور میں اب روزانہ تیس سے پچاس میکرونی کے ڈبے بیچتا ہو اور مجھے روزانہ ایک ہزار روپے کا منافع مل جاتا ہے۔

ظہیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم پہلے روز سے میکرونی کو بنانے میں اچھی غذا استعمال کرتے ہیں اور اس لئے لوگ اب اس کو پسند کرتے ہیں اور میں دو گھنٹے میں تمام ڈبے ختم کرکے گھر چلا جاتا ہو اور اب گھر میں کچھ حد تک مالی اسودگی ہے۔ ان کے مطابق امی اور بہن پہلے سے بہت زیادہ محنت کرتی ہیںتاکہ اس کاروبار کو مزید وسعت ملے۔

 



ظہیر کے مطابق میرا کاروبار کبھی اتنا اچھا نہ ہوتا اگر سوشل میڈیا پر میری تشہیر نہ ہوتی اور میں اب اس حقیقت کو جان چکا ہوں کہ سوشل میڈیا اور میڈیا کی کاروبار میں کتنی اہمیت ہے۔ ان کے مطابق اب وہ ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اپنے اکاؤنٹ چلا رہے ہیں جہاں لوگ ان کاحوصلہ بڑھاتے ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔