سوال تھا کہ وزیر اعظم عمران خان منتخب اراکینِ پارلیمنٹ کو قومی خزانے سے کوئی فنڈ جاری کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنی تھیں اور اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نوٹس لیا۔ نوٹس لینے والے بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جسٹس مقبول باقر بھی موجود تھے۔ اس کیس میں دونوں کا ماننا تھا کہ یہ اقدام غیر آئینی تھا اور اس کو سماعت کے لئے مقرر کیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس گلزار احمد صاحب نے سماعت کے لئے بنچ بنایا تو اس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تو تھے لیکن جسٹس مقبول باقر کا نام غائب تھا۔ پانچ ججز کے بنچ میں چیف جسٹس گلزار کے ساتھ دوسرے نمبر پر سینیئر ترین جج جسٹس عمر عطا بندیال، تیسرے نمبر پر سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مشیر عالم شامل تھے۔
لیکن جب فیصلہ آیا تو یہ عمران خان صاحب کے خلاف نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تھا۔ معاملہ کچھ یوں پیش آیا کہ بدھ کے روز وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹس جنرل نے عدالت کے سامنے استدعا کی تھی کہ یہ خبر درست نہیں ہے، اور وزیر اعظم کا اراکین کو 50، 50 کروڑ روپے دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بجا طور پر سوال اٹھایا کہ اگر حکومت کا کوئی فنڈ دینے کا ارادہ نہیں تھا اور ملک کے بڑے میڈیا چینلز پر یہ خبر چل رہی تھی کہ وزیر اعظم فنڈز جاری کرنے والے ہیں تو حکومت نے اس کی تردید کیوں نہ کی۔ یہ سوال جائز اس لئے ہے کہ 3 مارچ کو سینیٹ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنے اراکین پر شک ہے کہ وہ دیگر جماعتوں کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ شک کیوں نہ ہو؟ نہ تو تحریکِ انصاف نے کوئی نظریاتی امیدواروں کے بل پر حکومت بنائی ہے اور نہ ہی اس کی کارکردگی اتنی شاندار اور مقبولیت کا گراف اتنا بلند ہے کہ اراکین اپنے مستقبل کو اس کے ساتھ نتھی رکھتے ہوئے خود کو محفوظ خیال کرتے ہوں۔ لہٰذا اس نے جہاں سپریم کورٹ میں یہ ریفرنس دائر کر رکھا ہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے دیے جائیں، وہیں ایک صدارتی آرڈیننس بھی جاری کر دیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے اجازت دے دی تو الیکشن کس طرح سے کروایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے قریبی سمجھے جانے والے چینل کے ذریعے ایک ویڈیو بھی وائرل کروا دی گئی ہے جس میں تین سال قبل ہوئے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے الزام لگایا گیا ہے کہ جو اراکین اس ویڈیو میں رقم لیتے دکھائی دے رہے ہیں وہ سینیٹ کا ووٹ ہی بیچ رہے ہیں۔ یہ بلا شبہ عدالت پر اثر انداز ہونے کی ہی ایک کوشش ہے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے میڈیا میں ایک ایسی خبر کا آنا جو کہ سینیٹ انتخابات میں حکومتی جماعت کے اراکین کو لالچ دے رہی ہو، کسی بھی طرح شک و شبہات سے بالاتر نہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے اسی تناظر میں یہ سوال کیا تھا کہ حکومت نے تردید کیوں نہیں کی۔ خود اٹارنی جنرل نے تو جواب نہ دیا، جسٹس اعجاز الاحسن بیچ بچاؤ کروانے آئے اور انہوں نے ہدایات جاری کیں کہ آپ اس کی تردید کروا کے لائیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ تردید کے نیچے وزیر اعظم کے دستخط بھی کروا کے لائیں۔ نہ اٹارنی جنرل نے سوال کیا، نہ ہی ارد گرد بیٹھے دیگر ججز نے اس پر کوئی اعتراض کیا۔ لیکن جب اگلے روز سماعت شروع ہوئی تو بجائے اس کے کہ اٹارنی جنرل کوئی بات کرتے، خود جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ وزیر اعظم اس حوالے سے مختار بھی ہیں یا یہ فیصلہ حکومتِ پاکستان کا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وزیر اعظم، جنہیں مخالفین پیار سے ’لاڈلا‘ کہتے ہیں، ان کی ٹانگ اوپر رکھی گئی۔ دستخط تو کیا ہونے تھے، چیف جسٹس گلزار احمد نے فیصلے میں وہ حکم دیا جس کی مانگ بھی نہ کی گئی تھی۔ لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک اور کیس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درخواست گزار ہیں، لہٰذا وہ ممکن ہے کہ ذاتی عناد کا شکار ہوں، اس لئے ان کو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کوئی بھی کیس نہیں سننا چاہیے۔
یہ فیصلہ ایک ایسی عدالت کا ہے جس نے اب سے چند برس قبل نواز شریف کو پاناما کے کیس میں اقامے کی بنیاد پر باہر نکالنے کے بعد پاناما میں لگے الزامات کی تحقیقات کے لئے معاملہ نچلی عدالتوں کو بھجوایا تو اس پر سپریم کورٹ کا ایک نگران جج بٹھا دیا گیا جس کا کام تھا کہ وہ یہ دیکھے کہ ماتحت عدالت درست کام کر رہی ہے یا نہیں۔ یہ جج صاحب اس وقت بھی اس بنچ میں شامل ہیں جس نے عمران خان کے خلاف مقدمے میں فیصلہ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لکھا ہے اور پاناما بنچ میں بھی شامل تھے۔ یہ اپنی رائے نواز شریف کے خلاف دے چکے تھے۔ لیکن پھر بھی انہیں نگران بنا دیا گیا۔ بنچ کے ایک اور رکن جسٹس عمر عطا بندیال اس بنچ کا حصہ تھے جس نے عمران خان کو صادق اور امین قرار دیا۔ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ عمران خان کے حق میں جانبدار نہیں؟ جسٹس افتخار محمد چودھری جنہیں جنرل پرویز مشرف نے نکالنے کے لئے صدارتی ریفرنس بھیجا تھا، جنرل پرویز مشرف غداری کیس سامنے آیا تو وہ اس بنچ میں شامل تھے جس نے 30 جولائی 2009 کے فیصلے میں جنرل مشرف کے 3 نومبر 2009 کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیا۔ جب جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی کا فیصلہ ہوا تو اس وقت بھی افتخار چودھری صاحب بنچ کا حصہ تھے۔
ماضی میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ جج غیر جانبدار ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ محض وہ جج خود ہی کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جسٹس افتخار محمد چودھری اور مسلم لیگ نواز نے جسٹس ثاقب نثار کو اپنے کیسز میں بنچ سے ہٹانے کے لئے اسی بنیاد پر استدعا کی تھی تو ان دونوں جج صاحبان نے بنچ چھوڑنے سے انکار کیا تھا۔ لیکن قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں چیف جسٹس نے باقاعدہ فیصلے میں لکھا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ ایسے کسی بنچ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس گلزار احمد خود چیف جسٹس ہیں، کس کیس کے لئے بنائے گئے بنچ میں کون کون سا جج شامل ہوگا، یہ فیصلہ وہ خود کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تو بغیر لکھے بھی اپنی اس سوچ پر عمل کر سکتے تھے، وہ چاہتے تو اس بنچ سے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو علیحدہ رکھ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے حکمنامے میں لکھ کر ایک ایسی بحث کا آغاز کر دیا ہے جس کا انجام شاید بہت خوبصورت نہ ہو۔
سپریم کورٹ اپنی 1989 کی ایک ججمنٹ میں یہ لکھ چکی ہے کہ ایک ہی بنچ میں موجود کچھ جج کچھ دیگر ججز کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔ اس حوالے سے بلوچستان بار کونسل نے انتہائی واضح الفاظ میں سپریم کورٹ کو تنبیہ کی ہے کہ جس راستے پر عدالت چل رہی ہے، اس کا ماضی میں انجام درست نہیں نکلا۔ چیف جسٹس کے لکھے فیصلے پر بلوچستان بار کونسل نے سخت رد عمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے گذشتہ روز سپریم کورٹ کے ایک ہم مرتبہ جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور وزیر اعظم عمران خان کو باہم فریق گرداننا اور ان کو عمران خان کے بارے مقدمات کی شنوائی سے باز رکھنا آئین و قانون و اخلاقیات اور مراتب کے اصولوں کے منافی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے بنچ کی جانب سے بے بنیاد مفروضوں کی بنا پر اپنے معزز ساتھی جج کی دیانت و حلف کی پاسداری اور بلا امتیاز انصاف میں ان کے کردار پر انگشت نمائی کرنا ان کے اپنے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ کوئی ہم پلہ شخص اپنے ہم مرتبہ شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا مجاذ نہیں ہے اور نہ وہ کسی کو پابند کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ یہ صرف ذاتی عناد، پسند و ناپسند کا اظہار اور عدلیہ کے اندر تفریق پیدا کرنا اپنے بازو کو الگ کر کے بھوکے کتوں کے سامنے پھینکنے کے مترادف ہے۔
بلوچستان بار کونسل نے خبردار کیا کہ عدلیہ کو ایک بار پھر 1990 کی دہائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جب ایک بنچ دوسرے بنچ کے خلاف فیصلے دیتا رہا ہے۔ کسی بھی جج کے آئینی اختیارات کو کوئی سلب کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ ہر ایک اپنے ضمیر و اللہ کے سامنے جوابدہ ہے اس لئے قاضی صاحب پر کوئی قدغن یا ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا از خود مس کنڈکٹ کے زمرے اسی طرح جرم ہے جیسے 3 نومبر 2007 کو ایک آرڈر کے ذریعے ججز کو کام سے روکا گیا تھا۔