پاکستان میں تبدیلی، انقلاب کے امکانات اور رچرڈ گرے کی فلم 'انٹرسیکشن'

پاکستان میں تبدیلی، انقلاب کے امکانات اور رچرڈ گرے کی فلم 'انٹرسیکشن'
اس مضون کے پہلے حصے میں ہم نے پاکستان کے سیاسی ماحول اور عمران خان کی تبدیلی کا ذکر پیش کیا تھا۔ یہ تحریر اسی مضمون کا دوسرا اور آخری حصہ ہے۔

آپ نے فیض احمد فیض کی نظم ' ہم دیکھیں گے' پڑھی ہو گی۔ ہوسکتا ہے کالج میں یا پھر جلسے میں نظم پڑھ کر سامعین کے لہو کو گرمایا بھی ہو لیکن افسوس شاعری کا یہ شہ پارہ صرف لذت سماعت کے لیے کارآمد ہے۔ انقلاب کا پکوان تیار کرنے کے لیے شاعری کے علاوہ دیگر عوامل ضروری ہوتے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں ضیاء الحق کے آمرانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جب اقبال بانو نے لاہور سٹیڈیم میں یہ نظم پڑھی تو سٹیڈیم 'انقلاب زندہ باد' کے نعروں سے گونج اٹھا تھا اور آج تک وہ انقلاب خود اپنی جستجو میں سرگرداں ہے۔ نعروں اور تقریروں سے انقلاب برپا ہوتا تو ہم اب تک نہ جانے کتنے انقلاب بھگت چکے ہوتے۔

ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مشرف کے دور میں جو وکلا تحریک چلی اس میں انقلاب کی آمد آمد کے نعرے لگتے تھے۔ تختوں کو گرانے اور تاج کو اچھالنے کے چرچے ہوتے تھے۔ دھرتی تھر تھر کانپنے کی تاریخیں دی جاتی تھیں۔ بجلی کڑ کڑ کڑکنے پر شرطیں لگتی تھیں۔ اس انقلابی دور میں 'دھرتی ہوگی ماں کے جیسی' کی طرز کے ملی نغمے لکھے جانے لگے۔ دانشور منہ سے جھاگ اگلتے ہوئے انقلاب فرانس و انقلاب روس کے قصے سناتے تھے اور سامعین کو یہ یقین دلاتے تھے کہ اب انقلاب کو سرزمین پاکستان پر لینڈ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بعدازاں انقلاب کسی مغرور محبوبہ کی طرح دور سے اپنی ہلکی سی جھلک دکھا کر غائب ہو گیا اور ہلکی سی جھلک بھی نظر کا دھوکہ ثابت ہوئی۔

اس ملک کی زمین عوامی انقلابات کے لیے بانجھ ہے کیونکہ جب قوم اندرونی طور پر ایک دوسرے کا استحصال کرنے میں مگن ہو تو پھر ان پر لازمی طور پر استحصالی گروہ ہی حکومت کرتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک قوم کے افراد ایک دوسرے کا استحصال کرتے ہوں اور ان پر حکومت کرنے والے انصاف پسند ہوں۔ آدم خور قوم کا حاکم سبزی خور نہیں ہو سکتا۔ ایک استحصال پسند قوم ہمیشہ استحصال پسند حکمران پیدا کرتی ہے یعنی جیسی قوم ویسے حکمران۔ جس معاشرے میں نچلے طبقے سے اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک استحصال ہی استحصال ہو وہاں انقلاب نہیں بلکہ صورت بدل بدل کر عذاب آتے ہیں۔ عوام ایک اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیرے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ عوام ایک دھوکہ کھانے کے بعد دوسرا فریب خریدنے کے لیے لائن میں لگ جاتے ہیں۔

استحصال پسند قومیں اگر کوئی تبدیلی لے کر آتی بھی ہیں تو ایسی کھوکھلی تبدیلیوں کے باطن میں وہی قدیمی قومی استحصالی روح کارفرما ہوتی ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک قوم استحصال پسندی و خودغرضی اور دیگر بداخلاقیوں میں غرق ہو جاتی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ جب علماء بگڑ جاتے ہیں تو پوری قوم بگڑ جاتی ہے۔ علماء کے بگاڑ کا اثر وسیع و گہرا ہوتا ہے۔ انانیت، نفس پرستی و تکبر میں گرفتار عالم کے پیچھے چلنے والوں پر اس کا رنگ چڑھتا چلا جاتا ہے۔ غرض قوموں کی بداخلاقی و زوال کا موضوع وسیع ہے اور ایک دو کالموں میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ بہرحال عرض یہ کرنا ہے کہ پاکستان میں اس وقت خانہ جنگی کے آثار تو نظر آ رہے ہیں لیکن ایسے کسی انقلاب کی نشانیاں ظہور پذیر نہیں ہو رہیں جو 'دھرتی ہو گی ماں کے جیسی' پر منتج ہوں۔

دوسری صورت میں الیکشن کے ذریعے نرم انقلاب لانا بھی خوش فہمی ہے۔ کان کو ادھر سے پکڑو یا اُدھر سے، بات ایک ہی ہے۔ الیکشن کے توسط سے استحصال پسند قوم اپنی پسندیدہ استحصال پسند سیاسی جماعتوں کو منتخب کر لیتی ہے اور بس۔

اب نہ انقلاب برپا ہو سکتا ہے اور الیکشن بھی بے فائدہ ہیں تو پھر ملک کا بنے گا کیا؟ اس سوال کا جواب مشہور ہالی ووڈ اداکار رچرڈ گرے سے مل سکتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں رچرڈ کی رومانوی فلم 'انٹرسیکشن' پردہ سکرین پر جلوہ افروز ہوئی تھی۔ فلم میں رچرڈ دو عورتوں کی محبت کے مابین معلق رہتا ہے۔ آخر میں رچرڈ ایک عورت کے ساتھ باقی زندگی گزارنے کا اٹل فیصلہ کر لیتا ہے۔ فلم میں جب ہر کردار اپنا اپنا فیصلہ کر کے بیٹھ جاتا ہے تو پھر قدرت کا فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ رچرڈ روڈ ایکسیڈنٹ میں مر جاتا ہے اور یوں سارے کرداروں کے اپنے تئیں کیے ہوئے فیصلے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ (ختم شد)