عمران خان کو ہرانا ہے تو مخالف جماعتیں ڈرائنگ بورڈ پر واپس جائیں

ٹوئٹر سپیسز ہوں یا الیکشن مینجمنٹ ایپلیکشنز، ایس ایم ایس کے ذریعے امیدواروں کے حلقے اور انتخابی نشانات معلوم کرنے کا نظام ہو یا اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے خان صاحب کی ورچوئل تقریریں ہوں، یہ سب انتظامات خان صاحب کی نوجوان ٹیم کر رہی ہے۔ جبکہ ان کے مخالفین ابھی تک جدید ٹیکنالوجی کے فوائد نہ سمجھنے پر ہی مُصر ہیں۔

عمران خان کو ہرانا ہے تو مخالف جماعتیں ڈرائنگ بورڈ پر واپس جائیں

فورڈ موٹر کمپنی براعظم نارتھ امریکہ کی دوسری بڑی اور دنیا کی چھٹی بڑی آٹوموبیل مینوفیکچرنگ کمپنی ہے۔

2000 کی دہائی کے شروعات میں جب میں کینیڈا آیا تو ہر نئے امیگرینٹ کی طرح اپنی فیلڈ کی جاب ڈھونڈنے میں مجھے کچھ وقت لگا۔ اس دوران مجھے فورڈ موٹرز کمپنی کے ایک پلانٹ میں بطور مشین آپریٹر جاب مل گئی۔ تنخواہ مارکیٹ سے اچھی تھی اور چونکہ آٹو مینوفیکچرنگ کی دنیا میرے لیے بالکل نئی تھی تو میں نے کچھ عرصہ یہاں رک کر نئی ٹیکنالوجیز سیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ دن کے وقت فیکٹری میں فورڈ گاڑیوں کے پارٹس مکمل روبوٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے اور شام کے وقت مقامی کمیونٹی کالج میں مختلف کورسز کے ذریعے انہی مشینوں کی ٹیکنالوجی سٹڈی کرتا۔ یوں مجھے پہلی بار ایلن بریڈلے روبوٹ پروگرامنگ، پی ایل سی پروگرامنگ، سی این سی پروگرامنگ، ٹولز سیٹ اپ، لیِن مینوفیکچرنگ، نیومیٹکس اور ہائیڈرالکس وغیرہ کے بارے میں سیکھنے کا موقع ملا۔

ہمارا کمیونٹی کالج چونکہ ہمیں اکثر مطالعاتی دوروں پر جاپانی اور امریکن آٹو موٹِو فیکٹریز لے جاتا تھا تو مجھے دونوں ممالک کی مینوفیکچرنگ ٹیکنیکس اور کوالٹی کا موازنہ کرنے کا موقع ملتا رہتا۔ میں جیسے جیسے موازنہ کرتا جاتا، مجھے واضح طور پر نقائص اور ان کی بنیاد پر ہونے والا نقصان نظر آتا جاتا۔ آٹو مینوفیکچرنگ میں چونکہ سپلائی چین کے معاہدے کم از کم دو سال پہلے طے کر لیے جاتے ہیں تو میرا اندازہ تھا کہ اگر کوالٹی اور سپلائی چین کے معاملات کو بروقت نہ سنبھالا گیا تو ایک سے دو سال کے اندر کمپنی کو شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میری حیثیت چونکہ محض ایک مشین آپریٹر کی تھی تو میں نے اپنے محدود کردار میں رہتے ہوئے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں میں نے 2004 میں دو خطوط لکھے۔

پہلا خط اپنے مقامی پارٹس مینوفیکچرنگ پلانٹ کے آپریشنز مینجر کو لکھا۔ اس خط میں میں نے مشینوں کا ڈاؤن ٹائم کم کرنے اور پارٹس میں نقائص کو کم کرنے بارے تجاویز دی تھیں۔ آپریشنز مینجر کو میری تجاویز کافی پسند آئیں۔ اس نے فوری طور پر مجھے 300 ڈالرز کا بونس بطور انعام دے دیا۔ لیکن اس کے بعد جب تجاویز پر عمل کرنے کا وقت آیا تو میری تجاویز سیاست کی نذر ہو گئیں۔ بعض سپروائزرز کو کسی طور گوارا نہیں تھا کہ ایک مشین آپریٹر کی بات کو اس قدر اہمیت ملے، لہٰذا مختلف حیلوں بہانوں کو بنیاد پر وہ معاملہ تمام ہوا۔

دوسرا خط میں نے براہ راست فورڈ کمپنی کے اس وقت کے سی ای او اور آج کل بورڈ کے چیئرمین مسٹر ولیم کلے فورڈ کو لکھ دیا۔ ولیم کلے فورڈ کمپنی کے بانی ہینری فورڈ کے پڑپوتے ہیں۔ اس خط میں میں نے چار چیزوں پر زور دیا۔

فورڈ ایسکیپ ہائبرڈ ماڈل کو بطور ماحول دوست مارکیٹ کیا جائے۔ اس حوالے سے ایک ٹی وی کمرشل کا آئیڈیا بھی پیش کیا۔

ٹیلی وژن مارکیٹنگ میں اس بات پر زور دیا جائے کہ ہمارے مقابلے میں جو حریف موجود ہیں، ان کو بھی ہم نے ہی تخلیق کیا ہے کیونکہ کیڈی لیک کمپنی کی بنیاد ہنری فورڈ نے رکھی تھی۔

فورڈ کی فیملی سیڈان ٹارس کار کو ری ڈیزائن کیا جائے۔ اس حوالے سے کچھ ڈیزائن کے بارے میں تجاویز دی گئی تھیں۔

اس کے علاوہ پارٹس کی کوالٹی اور سپلائی چین کے حوالے سے تجاویز بھی شامل تھیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دو ہفتے بعد میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب سی ای او فورڈ کمپنی کے آفس سے ڈائریکٹر بریڈ سائمنز کا جواب مجھے موصول ہو گیا۔ ڈائریکٹر سائمنز نے سب سے پہلے تو کمپنی کے بارے میری فکرمندی اور تجاویز پر شکریہ ادا کیا اور پھر بتایا کہ فکرمندی کی کوئی بات نہیں، کمپنی اس وقت اپنا عروج انجوائے کر رہی ہے۔ نیز، میری تجاویز متعلقہ شعبوں کو بھیج دی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ میں بہرحال سمجھ گیا کہ ڈائریکٹر صاحب نے نرم الفاظ میں کہا ہے کہ تمہیں کمپنی کا 'ماما' بننے کی ضرورت نہیں۔ خط کا یہ جواب مجھے یکم نومبر 2004 کو موصول ہوا تھا۔ یہ خط میرے پاس اب بھی محفوظ ہے۔ اس خط کے 14 مہینے بعد دو اہم اور قابلِ ذکر واقعات رونما ہوئے؛

23 جنوری 2006 کو CNN نیوز پر خبر نشر ہوئی کہ فورڈ کمپنی نے امریکہ بھر میں اپنے 33 میں سے 14 پلانٹس بند کر دیے ہیں۔ وجہ سپلائی چین کے معاملات اور گاڑیوں کے انجن میں نقائص کی شکایات کے باعث گرتی ہوئی سیل بتائی گئی تھی۔

دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ فورڈ کمپنی نے اپنی فیملی سیڈان کار ٹارس کو ری ڈیزائن کرنے کا اعلان کر دیا۔ چونکہ کار کو جب ری ڈیزائن کیا جاتا ہے تو اس کے ڈیزائن بلیو پرنٹ سے لے کر عملی شکل میں سامنے آنے تک تمام معاملات میں کم از کم ڈیڑھ سے دو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، لہٰذا فورڈ ٹارس کا نیا ماڈل 2008 میں مارکیٹ میں آ گیا۔

اس کے علاوہ فورڈ اسکیپ ہائبرڈ کا ایک اشتہار جس میں ایک ڈرائیور اسکیپ ڈرائیو کرتا ہوا جنگل سے گزر رہا ہوتا ہے اور اس کے راستے میں ایک معصوم سا ہرن آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ ہرن فورڈ اسکیپ ہائبرڈ کو دیکھ کر بالکل بھی نہیں گھبراتا۔ یہ اشتہار اگلے کئی سال تک ٹی وی سکرینوں کی زینت بنتا رہا۔

2008 میں ہی فورڈ نے ایک نئی سیڈان کار فورڈ فیوژن متعارف کروائی۔ اس کے اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ 'we created our rivals' یعنی ہمارے حریف بھی ہمارے ہی تخلیق کیے ہوئے ہیں۔

فورڈ ٹارس کی سیل جو 2005 میں 1 لاکھ 96 ہزار سے 2006 میں گر کر 1 لاکھ 74 ہزار رہ گئی۔ 2007 میں اس کی محض 34 ہزار کاریں بک سکیں۔ لیکن 2008 میں یہ سیل 56 ہزار اور 2010 میں 68 ہزار تک آ گئی۔ 2011 میں فورڈ ٹارسں کار کو امریکہ اور کینیڈا میں پولیس کی پسندیدہ کار قرار دیا گیا۔ آپ گوگل پر 2006 اور 2008 ماڈلز سرچ کریں تو آپ کو واضح فرق نظر آ جائے گا۔

میں اس دوران چونکہ چند سال قبل آٹو مینوفیکچرنگ فیلڈ سے اپنی آئی ٹی فیلڈ میں واپس آ چکا تھا تو نہ میں نے فورڈ کا دوبارہ فالواپ لیا، نا ہی انہوں نے کریڈٹ دینے کی زحمت کی۔

اس کیس سٹڈی کو سامنے رکھنے کا مقصد صرف ایک اپروچ کو آپ کے سامنے رکھنا تھا جس میں بہتری کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے سی ای او کیلئے تمام تر انا، کروفر اور رعونت ایک طرف رکھتے ہوئے محض ایک مشین آپریٹر کی تجاویز بھی مقدم ہو سکتی ہیں۔

تحریر کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش ہے کہ باقی کی بات مختصراً ہو سکے۔ آپ یہی صورت حال ہماری ڈائنو سار سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتاؤں کے حوالے سے دیکھیں کہ کیا ان میں اتنی صلاحیت یا گنجائش ہے کہ کھلے دل سے تجاویز قبول کر سکیں؟ دوسری جانب صرف 10 سال کے عرصے میں اگر عمران خان نے ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو کونے میں دھکیل کر رکھ دیا ہے تو اس کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہیں جن کو انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں ان میں سے صرف پانچ عوامل کو یہاں اختصار کے ساتھ درج کر رہا ہوں، اس کے بعد فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔

معاشی نظام کی تشکیل

خان صاحب نے نہایت کامیابی سے سوشل میڈیا پر ایک ایسا ایکوسسٹم تخلیق کر دیا ہے جس کے تحت ان کے دنیا بھر میں پھیلے کارکنان ان کی پارٹی کو سپورٹ کرنے والے ہر اینکر و جرنلسٹ کو دھڑا دھڑ یوٹیوب ویوز دیتے ہیں۔ عین اس وقت جب کئی صحافتی ادارے اپنے ورکرز کو بروقت تنخواہ دینے سے بھی قاصر ہیں، پی ٹی آئی کے سپورٹرز ان اینکرز اور رپورٹرز کو ڈالرز میں پیسہ کمانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کے شدید حمایتی یوٹیوبرز دو تین سال میں ہی موٹر سائیکلوں سے 80، 80 لاکھ کی گاڑیوں اور محل نما گھروں کے مالک بن چکے ہیں۔ صورت حال یہاں تک آ گئی ہے کہ خان صاحب کے سخت مخالفین بھی یوٹیوب ویڈیوز کے تھمب نیل میں خان صاحب کی فوٹو لگانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔

اداروں کے اندر رابطے

اگر آپ کو یاد ہو تو 2017 میں پاناما فیصلہ کے وقت سپریم کورٹ کے ججز کی فیملیز سپریم کورٹ میں موجود تھیں اور فیصلہ سنائے جانے کے بعد یہ فیملیز اس وقت سپریم کورٹ کے اندر ہی ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارکبادیں دیتی پائی گئی تھیں۔ خان صاحب نے اداروں کے کرتا دھرتاؤں تک کنکشن تلاش کیے اور اس کیلئے اپنی پارٹی کی فی میل ورکرز کو استعمال کیا۔ پاناما فیصلے اور اس کے بعد کے کئی فیصلوں کے وقت یہ کہا جانے لگا تھا کہ فیصلے جج صاحبان کے کچن میں طے ہوتے ہیں۔

دستیاب ذرائع کا درست استعمال

خان صاحب نے شیخ رشید کو چپڑاسی بھی نہ رکھنے کا عندیہ دیا تھا، فواد چوہدری کو تھالی کا بینگن اور عامر لیاقت کو ایک غلیظ آدمی قرار دے رکھا تھا۔ شہباز گل کے اوپر قائد اعظم یونیورسٹی میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام تھا، لیکن جب مخالفین پر چڑھائی کرنے کی نوبت آئی تو خان صاحب نے اپنا ہی تھوکا چاٹ کر ان تمام کرداروں کو قبول کیا اور ان کو مخالفین کے پیچھے لگا دیا۔

عوام سے رابطہ

خان صاحب کا عوام سے اس قدر شدید رابطہ رہا کہ روزانہ قوم سے ایک یا بعض دفعہ دو خطاب، ہفتے میں چار پریس کانفرنسز اور تین انٹرویوز عرصہ دراز سے ان کے معمول کا حصہ ہیں۔ خان صاحب نے میڈیا اور عام پبلک کے سامنے اپنی بات اس قدر دہرائی ہے کہ اب وہ بات ذہنوں کا حصہ بن کر لاشعور میں سما چکی ہے۔ دوسری جانب ان کے مخالفین کا چھ سات ہفتے بعد چھ سیکنڈ کا ایک ویڈیو کلپ نما بیان آتا رہا یا وقتاً فوقتاً بی ایم ڈبلیو کے پائیدان پر کھڑے ہو کر کراؤڈ پلنگ کا مظاہرہ ہی کافی سمجھا گیا۔

کارکنوں کی رسائی

آپ خان صاحب کے زمان پارک میں ٹانگ پر کئی مہینے تک نیلا پلستر چڑھائے کرسی پر بیٹھنے کے دن یاد کر لیں یا بنی گالہ میں خان صاحب کے ساتھ نوجوانوں کی ملاقاتوں کے مناظر دیکھ لیں، خان صاحب تک ان کے عام کارکن کی رسائی ہے۔ خان صاحب تک عام کارکن کی تجویز پہنچانا کسی کیلئے زندگی موت کا مسئلہ نہیں بنتا بلکہ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو چلانے والی ٹیم کے کرتا دھرتا سب کے سب نوجوان ہیں جو جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہر نیا پلیٹ فارم خان صاحب کے کہے بغیر ہی تیار کر کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ آپ ٹوئٹر سپیسز دیکھ لیں یا الیکشن مینجمنٹ کی ایپلیکشنز دیکھ لیں، ایس ایم ایس کے ذریعے پی ٹی آئی امیدواروں کے حلقے اور انتخابی نشانات معلوم کرنے کا نظام ہو یا اے آئی ٹیکنالوجی کے ذریعے خان صاحب کی ورچوئل تقریریں ہوں، یہ سب انتظامات خان صاحب کی نوجوان ٹیم کرتی ہے۔ دوسری جانب خان صاحب کے مخالفین فی الحال انتخابی معاملات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے فوائد کو نہ سمجھنے پر ہی مُصر ہیں۔

تحریر کا اختتام اس پر کرتا ہوں کہ خان صاحب کے مخالفین کے پاس دو راستے ہیں؛

فورڈ کمپنی کی طرح پارٹی آپریشنز کی تشکیلِ نو کرتے ہوئے واپس ڈرائنگ بورڈ پر جائیں، تجاویز اور آئیڈیاز کیلئے اپنے ذہن کھولیں، انا اور اقربا پروری کو ایک جانب رکھیں، بہتری کی خاطر خامیوں کی نشاندہی اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں اور قابل، ذہین اور تجربہ کار نوجوانوں کو سامنے آ کر اپنے لیے یہ جنگ لڑنے دیں کیونکہ آپ اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور آپ کے پاس وقت بہت کم ہے۔

یا

ان تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، لندن یا دبئی کا ٹکٹ کٹوائیں اور پارٹی کو قدرت کے طے کردہ نظام کے تحت اپنی موت آپ مرنے کیلئے چھوڑ دیں۔