پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کافی عرصے سے مضبوط ترین پارٹی رہی ہے۔ اس کی مقبولیت اور ووٹ بینک کا صوبے میں کوئی اور پارٹی مقابلہ نہیں کر سکی۔ پرویز مشرف کے آمریت کے زمانے میں بھی اس پارٹی نے اپنا اثر اور ووٹ بینک نہیں کھویا۔ اگرچہ 2018 میں پنجاب کی حکومت تحریک انصاف کو دے دی گئی مگر (ن) لیگ کے پاس پھر بھی 114 اراکین اسمبلی موجود تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر 'بیرونی ہاتھ' کا کمال نہ ہوتا تو 2018 کے انتخابات کے بعد پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت بنتی۔ پارٹی کی صوبے میں مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اگر (ن) لیگ کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا تو تحریک انصاف کے بھی کئی اراکین اسمبلی اگلے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ کی یقین دہانی پہ (ن) لیگ کے وزیر اعلیٰ کو ووٹ دینے پر راضی ہو جاتے۔
تحریک عدم اعتماد کے بعد چند دن کے لیے حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ (ن) لیگی اراکین اسمبلی کے مطابق حمزہ کا دور حکومت کارکردگی کے حوالے سے مایوس کن تھا جس سے نہ صرف پارٹی کے رہنما اور کارکن نالاں تھے بلکہ صوبے کے عوام میں بھی پارٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود پارٹی نے پنجاب میں اپنا اثر قائم رکھا اور مسلسل طاقتور حریف بن کر مخالفین کے ساتھ مقابلہ کرتی رہی۔ جب سے حمزہ شہباز کی حکومت پنجاب سے ختم ہوئی ہے، یوں دکھائی دیتا ہے جیسے (ن) لیگ نے پنجاب سے خود ساختہ کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اس کا صوبے کی سیاست میں رویہ ایک سیاسی پارٹی کا نہیں بلکہ شریف سلطنت کی عام سی ریاست کا ہے جس کو کہیں سے بھی بیٹھ کے چلایا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں موجودہ سیاسی عدم استحکام اور انتظامی انتشار اوج کمال کو پہنچ چکا ہے مگر اس کے باوجود پنجاب میں شریف سلطنت کے پنجاب کے خود ساختہ وارث حمزہ شہباز لندن میں موجود ہیں۔ ستم ظریفی کی حد تو یہ ہے کہ حمزہ شہباز پنجاب میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں اور پھر سے وزارت اعلیٰ کے سدا بہار امید وار بھی۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے عدم اعتماد کے وقت ان کی جمہوری اور سیاسی ذمہ داری تھی کہ وہ پنجاب اسمبلی میں موجود ہوتے لیکن انہوں نے واپس آنا گوارا نہیں کیا۔
اب جبکہ پرویز الہٰی نے پنجاب اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے تو اگلا مرحلہ نگران حکومت کے سیٹ اپ کا ہے جس میں آئین کی رو سے اپوزیشن لیڈر کو سپیکر کے ساتھ مشاورت کر کے نگران حکومت تشکیل دینے میں اپنا کردارادا کرنا ہوتا ہے۔ ان حالات میں بھی حمزہ شہباز کی پاکستان واپسی کی اب تک کوئی خبر نہیں ہے۔ لگتا ہے انہوں نے بھی محمد شاہ رنگیلے کی مانند 'ہنوزدلی دور است' والی پالیسی اپنا رکھی ہے۔
چند روز قبل مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنی بھتیجی اور (ن) لیگ کی قائد مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کا سینئر نائب صدر اور پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیا تھا۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ جب مریم نواز کو یہ عہدے دیے گئے تو وہ اس وقت پاکستان میں موجود ہی نہیں تھیں۔ سیاسی جماعتوں میں عہدے ان کو دیے جاتے ہیں جو ملک اور عوام میں رہ کر اپنا سیاسی کردار نبھاتے ہیں مگر سلطنت شریف میں سیاسی اقدار کا خیال کون کرتا ہے۔
مریم نواز کو نئے عہدے ملنے پر پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی طرف سے ڈھکا چھپا سا ردعمل بھی سامنے آیا کہ پارٹی کے وفادار اور سینئر رہنماؤں کو عہدے دینے کی بجائے سارے عہدے شریف خاندان میں بانٹے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی اپنی وزارت خزانہ پر اسحاق ڈار کے شب خون مارنے کے غم میں نوحہ کناں ہیں کہ پارٹی میں بڑے عہدے اور حکومت میں وزارتیں صرف شریف خاندان اور ان کے رشتہ داروں کا حق ہیں۔
پاکستان میں خاندانی لباس کے اندر ملبوس جمہوریت اور سیاست کے نظام کے ہوتے یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مریم اور حمزہ کو بڑے عہدے دینا ناگزیر تھا مگر ان کو پاکستان واپس آ کر اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔ شہزادے نے صوبے کو بے یار و مددگار چھوڑا ہوا ہے تو شہزادی نے پارٹی کے معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ شریف خاندان اور ان کے طرز سیاست سے یوں لگتا ہے کہ جیسے انہوں نے لندن میں تاج برطانیہ کا طرز حکومت سیکھ لیا ہے کہ وہ جہاں ہوں گے ادھر سے ہی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے سے حکومت، سیاست اور پارٹی کے امور کو چلا لیں گے۔
سلطنت شریف کے اسی رویے کی وجہ سے پرویز الہیٰ اپنے چند اراکین اسمبلی کے ساتھ صوبے میں سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور اسی رویے کی بدولت (ن) لیگ کے حریف عمران خان کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ شریف خاندان کی مقبولیت اور ووٹ بینک پہ کاری ضرب لگائیں تا کہ پارٹی کی صوبے میں بچی کچھی ساکھ کا بھی جنازہ نکل جائے۔
پرویز الہیٰ نے وزیر اعلیٰ بننے کے فوراً بعد ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے شروع کر دیے تھے۔ نئی ڈویژن اور نئے اضلاع کا اعلان، اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی، اپنی مرضی کے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافے، نئے جہاز اور مہنگی گاڑیوں کی درآمد جیسے منصوبوں پر عمل شروع کر دیا تھا۔
پرویز الہیٰ نے چند دنوں کی وزارت اعلیٰ میں طاقت اور اختیارات کے کئی جنم جی لیے ہیں۔ اس کے قصوروار پرویز الہیٰ نہیں بلکہ پنجاب اسمبلی کے نام نہاد اپوزیشن لیڈر ہیں جو صوبے میں موجود ہی نہیں۔ اگر اپوزیشن لیڈر ہوتے تو پرویز الہیٰ کو اس طرح عوامی فنڈز کے ساتھ اپنے سیاسی مستقبل کو سنوارنے کا موقع نہ ملتا۔
پاکستان میں ایک اور بھی المیہ ہے کہ یہاں سارے اختلافات اور تقسیم نچلے طبقے کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ اوپر کے طبقے کے لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر باہم مل جاتے ہیں۔ مشرف دور میں شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران حمزہ شہباز پاکستان میں شریف خاندان کے کاروباری معاملات سنبھال رہے تھے تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ ان کو ہر معاملے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پچھلے چند مہینوں سے حمزہ شہباز دانستہ طور پر 'چچا' پرویز الہیٰ کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے رہے تھے؟
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔