مریم نواز اور حمزہ شہباز کے مزاجوں کا فرق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے تاہم دونوں کی جانب سے اختلافات کا باقاعدہ اعتراف کبھی نہیں کیا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد میں حالیہ سیاسی بحرانوں کے باوجود مسلم لیگ ن کی قیادت سیاسی منظر نامے سے غائب رہی۔ مریم نواز کو ن لیگ کے سینئر نائب صدر اور پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیے جانے پر پارٹی میں ناصرف تجربہ کار قیادت میں کچھ بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے مابین ن لیگ پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے کنٹرول پر ٹسل بھی واضح طور پر دیکھنے میں آئی ہے۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے جلد ہی رن آف الیکشن ہو سکتا ہے لیکن مسلم لیگ ن اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیادہ تیار نظر نہیں آتی۔ جہاں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں ’الیکٹ ایبلز‘ کو منوانے میں مصروف ہے اور پی ٹی آئی انتخابات کی تیاریوں میں مگن ہے۔ اس دوران مسلم لیگ ن کی اندرونی انتشار کے ساتھ جدوجہد جاری ہے۔ ن لیگ دو دھڑوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے: ایک کی قیادت اس کی نو منتخب چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز کر رہی ہے اور دوسرے کی قیادت موجودہ وزیر اعظم کے بیٹے اور طویل عرصے سے پنجاب کے تخت کے وارث سمجھے جانے والے حمزہ شہباز کی ہے۔
حمزہ اور مریم دونوں حالیہ مہینوں میں بیرون ملک مقیم ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کافی پرجوش دکھائی دیتی ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کے دونوں رہنما رواں ماہ کے آخر میں وطن واپس آنے والے ہیں۔ اور ان کی واپسی کے ساتھ یہ ڈرامہ لامحالہ طور پر آگے بڑھے گا.
پارٹی کے ایک اندرونی ذرائع نے بتایا کہ "مریم نواز نے پہلے اپنے والد سے خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں پنجاب میں پارٹی کی باگ ڈور سونپی جائے۔ کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے میں دلچسپی رکھتی ہیں"۔ لیکن یہ حمزہ ہی تھے جو وزیر اعلیٰ بنے اور انہوں نے مریم کے تجویز کردہ کئی قانون سازوں کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ مریم اپنے چچا کی سیاست سے خوش نہیں ہیں۔ مریم جارحانہ طرز سیاست کی حامی ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ شہباز شریف کا ’پرو - اسٹیبلشمنٹ‘ برانڈ سیاست کافی عرصے سے غیر موثر ہو گئی ہے۔
نون لیگ کے صدر کی جانب سے جاری کیے جانے والے حالیہ نوٹیفکیشن کے مطابق، مریم نواز باضابطہ طور پر پارٹی میں دوسری سینئر رہنما بن گئی ہیں۔پہلے نمبر پر ان کے چچا اور پارٹی کے صدر شہباز شریف ہیں جو ملک کے وزیراعظم بھی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف ن لیگ میں کوئی عہدہ نہیں رکھ سکتے لیکن وہ بدستور پارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔
خواجہ آصف، تنویر حسین، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، راجہ ظفر الحق جیسے رہنماؤں سمیت سبھی اب مریم نواز کے ماتحت ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے نئے پارٹی عہدہ کے ساتھ اب وہ پنجاب میں پارٹی اور اس کے پارلیمانی امور کی نگرانی کرنے جا رہی ہیں۔ حمزہ کو اس کی ہدایات پر عمل کرنا پڑے گا۔ آنے والے ہفتوں میں پنجاب میں پارلیمانی پارٹی کے کنٹرول پر دو کزنز کے درمیان تلخ جھگڑا ہو نے کا بھی امکان ہے۔
مسلم لیگ ن کا عمومی طور پر خیال ہے کہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی گورنر بلیغ الرحمان کی جانب سے مانگا گیا اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس کے بعد ان کے عہدے کے لیے رن آف الیکشن ہوں گے۔
پنجاب میں رونما ہونے والے واقعات میں سینئر شریفوں کا براہ راست ملوث نہ ہونا بھی پارٹی میں انتشار کا باعث بن رہا ہے۔
وفاقی وزراء بشمول خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، اعظم تارڑ اور سعد رفیق کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ عطاء اللہ تارڑ نے پیر اور منگل کو پنجاب اسمبلی میں ڈیرے ڈال لئے تاکہ وزیراعلیٰ کے اعتماد کے ووٹ سے منسلک ایک انتہائی اہم اسمبلی اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے ایم پی ایز پر نظر رکھی جاسکے۔ انہوں نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی شرکت کی اور پارٹی ایم پی ایز کو یقین دلایا کہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی.
جب ان سے پوچھا گیا کہ حمزہ کی غیر موجودگی میں پارٹی کے صوبائی امور کا انچارج کون ہوگا تو عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ اس سلسلے میں رانا ثناء اللہ، اعظم تارڑ اور سعد رفیق پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور عطا اللہ بطور فوکل پرسن خدمات سرانجام دیں گے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 2022 کے موسم گرما کے بعد سے پنجاب کے منظر نامے کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہےجس سے نواز شریف کے پاکستان واپس آنے کا کیس مضبوط ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر بے چینی کا احساس بدستور جاری ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صورت حال سے بچا جا سکتا تھا اگر پارٹی کی سینئر قیادت کسی بھی مختلف خیالات کو "غیر جانبدار" کرنے کے لیے موجود ہوتی۔'پارٹی عام طور پر ان حالات میں، اس طرح کے خیالات کو پارٹی قیادت کے پاس لے جایا جاتا ہے جو ان کو سنبھالتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے جس قیادت کی ضرورت ہے وہ نہیں ہے'۔
اس سے پارٹی کے اندر درجہ حرارت بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ ایک طرف کا خیال ہے کہ پارٹی سپریمو کو پاکستان واپس آنا چاہیے، جب کہ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے کچھ حلقے نواز شریف کی واپسی کے خلاف ہیں۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شریف برادران اور مریم کے درمیان جنیوا میں ڈونرز کانفرنس کے موقع پر ملاقات متوقع تھی تو ان کے درمیان بات چیت کے لیے سنجیدہ معاملہ تھا۔ معاشی طور پر دباؤ کا شکار پاکستانی حکومت توانائی کے تحفظ کے لیے بازاروں، دکانوں اور شادی ہالوں کو جلد بند کرنے کا حکم دینے پر مجبور ہے۔