حمزہ شہباز پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔ سنیچر کی صبح جب یہ واضح تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت پنجاب اسمبلی کی کارروائی لازمی ہونی ہی تھی اور اسی دن کی کارروائی میں نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب بھی ہونا تھا، یکایک ایوان میں اس وقت طوفانِ بدتمیزی گرم ہو گیا جب ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری تشریف لائے اور PTI ارکان نے ان پر پہلے لوٹے پھینکے اور پھر ان کے ساتھ دست درازی شروع کر دی۔ چند گھنٹے یہ تماشہ چلا لیکن پھر ایوان میں مسلم لیگ ن کے ارکان اور سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے ہلڑ بازی پر اترے ارکان بشمول چودھری پرویز الٰہی کو ایوان سے نکال دیا اور پھر ووٹنگ ہوئی جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز نے یہ الیکشن جیت لیا۔
حمزہ شہباز کون ہیں؟
حمزہ شہباز وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے صاحبزادے ہیں اور ان کی عمر 47 برس ہے۔ حمزہ کو مسلم لیگ ن کی سیاست میں ایک کلیدی حیثیت یوں حاصل ہے کہ یہ سیاسی جوڑ توڑ کے کام جانتے ہیں۔ پنجاب میں گذشتہ 20 سالوں میں جہاں نواز شریف اور شہباز شریف لمبا عرصہ جلا وطنی میں رہے اور بعد ازاں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر براجمان رہے، تو حمزہ ہی تھے جو پارٹی کے سیاسی معاملات دیکھ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پنجاب کے طول و ارض میں ن لیگی قیادت سے براہِ راست رابطے میں رہتے ہیں اور کسی بھی رابطہ کاری کی مہم میں یہ بھاری ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔
حمزہ شہباز نے ن لیگ کی باگیں کیسے سنبھالیں؟
جنرل پرویز مشرف کی جانب سے 1999 میں نواز شریف کا تخت الٹائے جانے کے بعد جب امریکہ، سعودی عرب اور سابق لبنانی وزیر اعظم سعد حریری کی مداخلت سے شریف خاندان اور مشرف کے درمیان ایک معاہدہ طے ہوا جس کی رو سے نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے خاندان جلا وطن کر دیے گئے تھے تو حمزہ شہباز کو پاکستان میں ہی رکھا گیا تھا۔ اگلے 7 سال جب ان کے والد اور تایا سعودی عرب اور پھر لندن میں قیام پذیر تھے، حمزہ شہباز نے مسلم لیگ ن کی قیادت بھی کی۔ وہ شریف خاندان کے واحد نوجوان رہنما تھے جو پارٹی کی قیادت کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کے سیاست میں آنے تک حمزہ کو ہی نواز شریف کا سیاسی جانشین سمجھا جاتا تھا۔
حمزہ شہباز الیکشن کہاں سے لڑتے ہیں؟
لاہور کا علاقہ گوالمنڈی مسلم لیگ ن کی سیاست کا گڑھ ہے۔ یہ شریف خاندان کا آبائی علاقہ ہے۔ نواز شریف نے جب سیاست کا آغاز کیا تو وہ اسی حلقے سے منتخب ہوا کرتے تھے اور جب 2013 میں انہوں نے طویل جلاوطنی کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے تحت ایک بار پھر الیکشن لڑا تو تب تک یہ حلقہ دو حلقوں میں بٹ چکا تھا۔ نواز شریف نے اپنے آبائی حلقے سے حمزہ شہباز کو کھڑا کیا جب کہ اس کے ساتھ والا حلقہ جو تب NA-120 کہلاتا تھا اور 2018 کے انتخابات میں NA-125 میں تبدیل ہو گیا، یہ نواز شریف کا حلقہ رہا۔ جب کہ حمزہ شہباز NA-119 (موجودہ NA-124) سے منتخب ہوئے تھے۔ 2018 کے انتخابات میں مری سے اپنے آبائی حلقے سے انتخاب ہارنے کے بعد شاہد خاقان عباسی یہیں سے ضمنی الیکشن لڑے اور کامیاب ٹھہرے تھے۔ حمزہ شہباز کا یہ حلقہ ملک بھر میں مسلم لیگ ن کا مضبوط ترین حلقہ سمجھا جاتا ہے۔
حمزہ شہباز کی اصل قابلیت کیا ہے؟
مسلم لیگ ن میں حمزہ شہباز کی اہمیت مقدم ہے۔ وہ پنجاب بھر میں پارٹی کی تنظیم کو جانتے ہیں، سمجھتے ہیں، خاندانی سیاست پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، لوگوں سے رابطوں میں رہتے ہیں۔ ابھی چند ہی ماہ قبل جب مسلم لیگ ن نے ڈسکہ کا انتخاب جیتا تو اس میں پارٹی کے مختلف گروپس کے آپسی اختلافات ختم کروا کے ن لیگ کی جیت کے مارجن کو 20 ہزار تک لے جانے میں حمزہ کا کلیدی کردار تھا۔ 2015 میں عبدالعلیم خان اور ایاز صادق کے درمیان مقابلہ ہوا تو یہاں بھی حمزہ شہباز کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئی تھیں اور آج جب حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ کا انتخاب لڑنے کے لئے پنجاب اسمبلی کے لئے روانہ ہوئے تو وہی علیم خان ان کے ہمرکاب تھے، جس سے ان کی سیاسی جوڑ توڑ کی صلاحیتیں واضح ہوتی ہیں۔
کرپشن الزامات اور تنازعات
شریف خاندان اور پاکستانی سیاست کے تمام بڑے رہنماؤں کی طرح حمزہ شہباز پر بھی کرپشن الزامات ہیں۔ ان میں سب سے اہم منی لانڈرنگ کا ہے جس میں وہ عمران خان دورِ حکومت میں قریب 20 ماہ جیل میں رہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کی ذات سے متعلق ماضی میں متعدد سکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں۔ تاہم، یاد رہے کہ ان پر کسی کیس میں واضح شواہد کے ساتھ کسی عدالت میں فیصلہ نہیں ہوا۔ منی لانڈرنگ کیس میں وہ اس وقت ضمانت پر ہیں۔
ن لیگ میں مریم بمقابلہ حمزہ شہباز
مسلم لیگ ن کی سیاست کا اس وقت سب سے بڑا سوال نواز شریف کی جانشینی کا ہے۔ مریم نواز اور حمزہ اس کے دو امیدوار ہیں۔ مریم نواز کا اندازِ رہنمائی اپنے والد اور چچا سے قدرے مختلف ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف نے جہاں لاہور شہر کے گلی کوچوں اور محلوں میں جا کر ذاتی سطح پر اپنے سیاسی تعلقات بنائے اور اس عمل میں کئی سال لگائے، یہ سیاست حمزہ نے تو ورثے میں پائی ہے لیکن مریم نواز کا انداز کچھ عمران خان سے ملتا جلتا ہے۔ وہ کراؤڈ کو متوجہ کر سکتی ہیں، بڑے جلسوں اور ریلیوں کی قیادت کر سکتی ہیں، عوام ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے دیوانے ہوتے ہیں، اور اسی خصوصیت کو سیاسیات کی زبان میں charisma کا نام دیا جاتا ہے۔ حمزہ میں یہ خصوصیات نہیں ہیں لیکن وہ الیکشن لڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ الیکشن میں کس امیدوار کو ٹکٹ دینی ہے، کس کے گھر جا کر اسے منانا ہے، کس کی ڈیوٹی کس کام پر لگانی ہے، کون سے حلقے میں کس برادری کو بڑا یعنی قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینا ہے اور کسے صوبائی اسمبلی کا چھوٹا ٹکٹ دیا جانا چاہیے، کون سا ورکر کون سی ذمہ داری بہتر نبھا سکتا ہے، یہ سائنس حمزہ کو ازبر ہو چکی ہے۔ اسی طرح وہ شہباز شریف کے آخری دو ادوار میں پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی ڈیل کرتے رہے ہیں۔ تاہم، ان کی اس کمزوری سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی جلسوں کے کھلاڑی نہیں۔ انہیں charismatic نہیں کہا جا سکتا۔ مریم نواز دوسرے صوبوں میں بھی ایک اپیل رکھتی ہیں اور گذشتہ برس پی ڈی ایم کے جلسوں میں انہوں نے بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں اپنی اس صلاحیت کا لوہا بھی منوایا۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف میں ایک بہترین پاور شیئرنگ فارمولہ تھا جس کے تحت بڑا بھائی وفاق اور چھوٹا صوبے کی سیاست کرتا تھا۔ ان کے نزدیک اگلی پیڑھی میں بھی اگر یہی اصول جاری رہا تو مسلم لیگ ن ایک طاقتور سیاسی کھلاڑی رہے گی۔ لیکن اگر یہ دونوں کزن آپس میں مخاصمت رکھیں گے تو اس کا نقصان ان دونوں کو بھی ہوگا اور مسلم لیگ ن بھی اپنی مقبولیت کا گراف قائم نہیں رکھ پائے گی۔ افسوس کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں چند خاندانوں کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ اس پر کفِ افسوس ملا جا سکتا ہے لیکن اس سے فی الحال جان چھڑانے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی۔