ملک میں نئی اتحادی حکومت بن چکی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کی 19 رکنی وفاقی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا ہے۔ گزشتہ تحریر میں ہم نے وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں شامل کیے گئے 5 ایسے وزرا کا تعارف پیش کیا تھا جو عوام کے منتخب نمائندے نہیں ہیں۔ ان میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر پٹرولیم مصدق ملک، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اقتصادی امور احد چیمہ شامل ہیں۔
یہ مضمون یہاں پڑھیں؛ پاکستان میں پہلی مرتبہ 5 غیر منتخب وزیر بھی وفاقی کابینہ کا حصہ
وزیر اعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں جہاں مسلم لیگ ن کے نمایاں رہنما شامل ہیں وہیں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم پاکستان اور استحکام پاکستان پارٹی کو بھی کابینہ میں نمائندگی دی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔ وفاقی کابینہ میں شامل باقی وزرا میں خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، رانا تنویر حسین، اعظم نذیر تارڑ، عطاء اللہ تارڑ، امیر مقام، جام کمال، اویس لغاری، شزا فاطمہ، ریاض پیرزادہ، قیصر شیخ، خالد مقبول صدیقی، چوہدری سالک حسین اور عبدالعلیم خان شامل ہیں۔ ان وزرا کا تعارف یہاں پیش کیا جا رہا ہے؛
خواجہ محمد آصف
خواجہ آصف کو ایک بار پھر مسلم لیگ ن نے وزیر دفاع کا عہدہ دیا ہے۔ 1991 میں والد کی وفات کے بعد خواجہ محمد آصف نے سیاست میں قدم رکھا۔ انتخابی سیاست میں سیالکوٹ کے حلقہ این اے 110 سے 1993 سے لے کر 2420 کے انتخابات تک لگاتار ایم این اے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
1991 میں بطور سینیٹر سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ 2008 میں قلیل مدت کے لئے یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی وزیر قدرتی وسائل اور پٹرولیم کا عہدہ بھی سنبھالا۔ 2013 میں انہیں وفاقی کابینہ میں وزارت پانی اور بجلی کا قلمدان سونپا گیا۔ بعدازاں وزیر دفاع بنے۔ 2017 میں سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں وزیر داخلہ کا قلمدان سنبھالا۔ 2018 کے انتخابات میں حلقہ این اے 73 سے ایک بار پھر تحریک انصاف کے عثمان ڈار کو شکست دی۔ 2024 کے انتخابات میں عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ ڈار کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
احسن اقبال
احسن اقبال شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر برائے منصوبہ بندی کے طور پر خدمات سرانجام دیں گے۔ احسن اقبال نے 1988 میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا تاہم انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سیاست کرنے لگے۔ 1993 میں این اے 90 نارووال سے ن لیگ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1997 میں دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن کے ہی ٹکٹ پر مسلم لیگ جونیجو گروپ کے چودھری اختر علی کو شکست دی۔ احسن اقبال کو چیئرمین پلاننگ کمیشن کا عہدہ دیا گیا۔ 2002 میں ق لیگ کی خاتون امیدوار رفعت جاوید کاہلوں سے ہار گئے۔ 2008، 2013 اور 2024 کے انتخابات میں بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔
رانا تنویر حسین
مسلم لیگ ن کے دیرینہ کارکن رانا تنویر حسین کو صنعت و پیداوار کا وزیر بنایا گیا ہے۔ رانا تنویر حسین 1985 میں پہلی مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ 1990، 1997، 2008، 2013، 2018 اور 2024 میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ رانا تنویر وزیرِ دفاعی پیداوار، وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی اور وزیرِ تعلیم رہ چکے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے رانا تنویر حسین نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1983 میں شیخوپورہ ڈسٹرکٹ سے کونسلر ممبر منتخب ہو کر کیا۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات، 1990 کے جنرل الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر کامیابی اپنے نام کی۔ انہوں نے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار ناصر احمد پنوں کو شکست دی۔
1993 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ناکام ہوئے۔ 1997 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ 2002 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ پر مسلم لیگ ق کے امیدوار برگیڈیئر (ر) ذوالفقار احمد ڈھلوں سے شکست کھا گئے۔ 2008 کے الیکشن میں کامیاب ہو کر بہت کم عرصے کے لئے گیلانی کابینہ کا حصہ رہے۔ 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ 8 جون 2013 کو انہوں نے وفاقی وزیر برائے دفاعی پیداوار کا حلف اٹھایا۔ 2018 اور 2024 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
اعظم نذیر تارڑ
سینیٹر اعظم نذیر تارڑ شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر قانون کے طور پر خدمات سرانجام دیں گے۔ اعظم نذیر تارڑ 2021 میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ سینیٹ میں قائدِ ایوان بھی رہے ہیں جبکہ وفاقی وزیرِ قانون و انصاف بھی رہ چکے ہیں۔
عطاء اللہ تارڑ
سابق صدرِ پاکستان محمد رفیق تارڑ کے پوتے عطاء اللہ تارڑ شہباز شریف کی کابینہ میں بطور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنائے گئے ہیں۔ عطاء اللّٰہ تارڑ پاکستان مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔
عطاء اللّٰہ تارڑ 2022 کے آغاز میں پنجاب حکومت کے ترجمان رہے۔ جولائی 2022 میں وفاقی کابینہ میں معاونِ خصوصی برائے انسدادِ منشیات رہے۔ دسمبر 2022 میں پنجاب کے وزیرِ داخلہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 2024 کے عام انتخابات میں پہلی بار انتخابی سیاست کا حصہ بنے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 98 ہزار 210 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو شکست دی ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ریاض حسین پیرزادہ
ضلع بہاولپور سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ کو شہباز شریف کی کابینہ میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کا قلم دان دیا گیا ہے۔ ریاض حسین پیرزادہ 2022 میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق رہے۔
میاں ریاض حسین پیرزادہ کے والد علاقے کی معروف اور اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیت تھے۔ میاں ریاض حسین نے سیاسی کیریئر کا آغاز 1985 میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ کر کیا۔ 1985 میں صوبائی وزیر جیل خانہ جات رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 1993، 2002 اور 2008 میں ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ریاض حسین پیرزادہ کو سیاست وراثت میں ملی ہے۔ 2002 میں ریاض حسین پیرزادہ نیشنل الائنس کے ٹکٹ پر مسلم لیگ ق کے سید تسنیم نواز گردیزی کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2008 میں ق لیگ میں شامل ہوئے اور اس بار پھر اپنے روایتی حریف سید تسنیم نواز گردیزی کو شکست دی۔ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر کے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر طارق بشیر چیمہ کو شکست دی۔ 2018 اور 2024 کے الیکشن میں بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔
شزا فاطمہ خواجہ
شزا فاطمہ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کا قلم دان دیا گیا ہے۔ شزا فاطمہ خواجہ مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی بھانجی ہیں۔ 2013 اور 2018 میں مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔ ماضی میں انہوں نے وزیر مملکت کے عہدے کے ساتھ نوجوانوں کے امور پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ اکتوبر 2017 میں انہیں وزارت تجارت، کامرس اور ٹیکسٹائل کے لیے پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کے ینگ پارلیمنٹیرینز فورم کی نائب صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
سردار اویس احمد لغاری
سردار اویس احمد لغاری سابق صدر سردار فاروق احمد لغاری کے صاحبزادے ہیں۔ وہ 1997 سے 1999 تک ممبرِ پنجاب اسمبلی رہے۔ 2002 سے 2004 تک وزیر برائے سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے۔ 2017 سے 2018 تک وفاقی وزیرِ توانائی کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
سردار اویس احمد خان لغاری نے 1998 میں پی پی 204 راجن پور سے کامیابی حاصل کر کے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ 2002 کے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اور صوبائی دونوں اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لیا اور دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بعدازاں انہوں نے صوبائی نشست چھوڑ دی اور قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھی۔ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں اپنے روایتی حریف سردار سیف الدین کھوسہ کو شکست دی۔ 2018 کے انتخابات میں پی پی 292 سے 32 ہزار 59 ووٹوں سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔2024 کے انتخابات میں این اے 186 سے ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔
جام کمال خان
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر برائے تجارت کا قلمدان دیا گیا ہے۔ جام کمال خان 2018 سے 2021 تک وزیرِ اعلیٰ بلوچستان رہے ہیں۔ وہ 2013 سے 2018 تک وزیرِ مملکت برائے پٹرولیم بھی رہ چکے ہیں۔
جام کمال 2001 سے 2005 اور 2005 سے 2008 تک ق لیگ کی جانب سے لسبیلہ کے ضلعی ناظم رہے۔ 2018 کے اوائل میں بلوچستان کی سطح پر بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہوئے۔ 2018 کے عام انتخابات میں جام کمال بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور بعد میں پارٹی کی قیادت میں بننے والی مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ وہ اپنے خاندان میں بلوچستان کے تیسرے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان سے قبل ان کے والد بلوچستان کے ایک بار جبکہ دادا جام غلام قادر 2 بار وزیراعلیٰ بلوچستان رہے۔
2023 میں انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2024 میں نواز لیگ کے ٹکٹ پر لسبیلہ اور آواران سے قومی اسمبلی جبکہ ضلع لسبیلہ سے صوبائی نشست پر کامیاب ہوئے۔ بعدازاں صوبائی نشست چھوڑ دی۔
ڈاکٹر قیصر احمد شیخ
ضلع چینوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر قیصر احمد شیخ کو شہباز شریف کی کابینہ میں میری ٹائم افیئرز کا قلمدان تفویض کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر قیصر احمد شیخ مسلم لیگ ن کے رکنِ قومی اسمبلی ہیں۔ وہ 2013 سے 2023 تک رکنِ قومی اسمبلی رہے۔ وہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ سیاسی سفر کا آغاز تحریک استقلال سے کیا اور پھر ن لیگ کے ساتھ وابستگی اختیار کر لی۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی
شہباز شریف کی وفاقی کابینہ میں ماضی میں دو بار وفاقی وزیر رہنے والے خالد مقبول صدیقی بطور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی خدمات سرانجام دیں گے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ہیں۔ 1997 سے 1998 تک صنعت و پیداوار کے وفاقی وزیر رہے۔ انہوں نے 2018 سے 2020 تک بطور وفاقی وزیرِ آئی ٹی و ٹیلی کام خدمات سرانجام دیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے۔ انہوں نے سیاسی سفر کا آغاز 1989 میں سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں طلبہ سیاست سے کیا۔ 1990 کے عام انتخابات سے پارلیمانی سیاست میں قدم رکھا اور حق پرست گروپ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1993 میں وہ ایم کیوایم کے ڈپٹی کنوینر بنا دیے گئے۔ 1997 میں ایک بار پھر وہ حیدر آباد سے ایم این اے منتخب ہوئے اور نواز شریف کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے صنعت و پیدوار بنے۔ 2013 میں وہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ 2016 میں الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایم کیو ایم میں لیڈرشپ کیلئے اختلافات سامنے آئے جس میں سرفہرست کنوینرشپ کیلئے ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی آمنے سامنے آ گئے۔ 2018 کے عام انتخابات میں وہ کراچی سینٹرل کی نشست این اے 255 سے الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی کا حصہ بنے اور عمران خان کی کابینہ میں انہیں وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا قلمدان دیا گیا۔
عبدالعلیم خان
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبد العلیم خان شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر نجکاری ہوں گے۔ بورڈ آف انویسٹمنٹ کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہو گا۔ عبدالعلیم خان لاہور کے حلقہ این اے 117 سے عام انتخابات میں ممبرِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ 2003 سے 2007 اور 2018 سے 2021 تک ممبرِ پنجاب اسمبلی رہے۔ 2019 سے 2021 تک وزیر برائے خوراک رہے۔
عبدالعلیم خان نے سیاست کا آغاز 2002 کے عام انتخابات سے کیا۔ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے حلقہ 127 سے الیکشن لڑا لیکن پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری سے شکست کھا گئے۔ 2003 میں ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ق کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے اور کامیاب ہوئے۔ بعدازاں انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کا قلمدان سنبھالا۔ 2008 میں ایک بار پھر مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے صوبائی حلقہ 127 اور 147 سے انتخابی عمل کا حصہ بنے لیکن دونوں نشستوں پر شکست کھا گئے۔ 2012 میں مسلم لیگ ق کو خیرباد کہتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور ڈپٹی پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 2013 کے عام انتخابات میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔
2015 میں قومی اسمبلی کے حلقہ 122 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار بنے لیکن ایاز صادق سے ہار گئے۔ جولائی 2016 میں تحریک انصاف کی جانب سے صدر سینٹرل پنجاب کا عہدہ سونپا گیا۔ 2018 میں عبدالعلیم خان نے 52 ہزار 299 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے رانا احسن نے 45 ہزار 228 ووٹ لیے۔ بعدازاں عبدالعلیم خان کو وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ میں صوبائی وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کا عہدہ دینے کے ساتھ ساتھ سینئر وزیر کا درجہ بھی دیا گیا۔
چودھری سالک حسین
مسلم لیگ ق کے صدر اور سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کے صاحبزادے چودھری سالک حسین شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز و انسانی ترقی کے طور پر خدمات سرانجام دیں گے۔
چودھری سالک حسین 2018 میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ وزیرِ سرمایہ کاری بورڈ رہے ہیں۔ 22 اپریل 2022 کو انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وفاقی وزیر برائے سرمایہ کاری کے عہدے پر تعینات ہونے سے قبل انہوں نے تقریباً تین ہفتے تک بغیر کسی پورٹ فولیو کے خدمات انجام دیں۔ 2024 کے عام انتخابات میں 105,205 ووٹ حاصل کیے اور پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار قیصرہ الہیٰ کو شکست دی۔ قیصرہ الہیٰ رشتے میں ان کی ممانی لگتی ہیں۔ وہ چودھری پرویز الہیٰ کی اہلیہ ہیں۔