نواز شریف ن لیگ کے سپریمو ہیں لیکن ان سے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے دھوکا کیا اور وزارت عظمیٰ چھین لی۔نواز گروپ نے تو شہباز حکومت کو ہی 'ڈس اون' کر دیا ہے۔ یہ کہنا تھا رہنما پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) لطیف کھوسہ کا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما لطیف کھوسہ نے انکشاف کیا کہ نوازشریف اور شہباز شریف کا آپس میں جھگڑا چل رہا ہے۔ نواز شریف پارٹی کے سپریمو ہیں لیکن ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ شہباز شریف نے نواز شریف کو دھوکا دے کر ان سے وزارت عظمیٰ چھینی۔ن لیگ میں دو گروپ ہیں۔ ایک طرف نواز شریف کا گروپ ہے جس میں رانا ثنااللہ، خرم دستگیر اور سعد رفیق اور جاوید لطیف ہیں۔ یہ گروپ کہتا ہے کہ ہم سے حساب نا لینا یہ ہماری حکومت نہیں ہے۔ نواز شریف ہوگا تو ہماری حکومت ہوگی۔ انہوں نے خود کو شہباز شریف سے الگ کرلیا ۔ اس حکومت کو ہی 'ڈس اون' کر دیا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ان کا مزید کہنا تھا کہ شہباز شریف کسی اور کی گود میں چلے گئے ہیں۔ یہ حکومت کسی اور کی فرمائش پر چل رہی ہیں۔ اس حکومت کی دسترس میں کچھ نہیں ہے۔ نا وزیر خزانہ ان کا ہے، نا وزیر داخلہ ان کا ہے۔ یہ حکومت تو بلوچستان کا وزیراعلیٰ بھی اپنا نہیں بناسکی۔ ہم نے تو دیکھ لیا ہے کہ کس کی حکومت یہاں چل رہی ہے۔ کیا صرف جنرل باجوہ کے کردار سے منسوب کر سکتے ہیں؟ لندن پلان سےیہ لوگ انحراف نہیں کر سکتے۔ بچے بچے کو پتا ہے کہ جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن نہیں مانگی تھی۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کاروباری آدمی ہیں، وہ کاروبار کرنے آتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو کاروباری حب بنا دیا۔ یہاں سے مفاد اٹھا کر وہ واپس لندن روانہ ہوجائیں گے۔
عمران خان کے خلاف کیسز میں ریلیف ملنے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی بھیک نہیں چاہیے۔ میرٹ پر ریلیف ملے گا۔ عمران خان جلد سائفر ، عدت میں نکاح اور القادر ٹرسٹ کیس میں بری ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے عمران خان کو کسی بھی قسم کی ڈیل کی آفر ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان مر جائے گا لیکن ڈیل نہیں کرے گا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ میرا جینا مرنا اسی ملک میں ہے اور ملک چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاوں گا۔ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ ریاست پر ڈاکہ مارا گیا۔ میں عوام کو حقیقی آزادی دلا کر رہوں گا خواہ یہ پاکستان کی تمام جیلیں گھما لیں۔ عمران خان کی طرف سے صاف جواب ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ فارم 47 ختم کر کے عوام کو ان کا مینڈیٹ واپس لوٹا دیں تاکہ وہ جس کو حکومت میں لانا چاہتے ہیں لے آئیں۔
جیسے نواز شریف اور شہباز شریف کی سوچ اور سیاست میں فرق سے متعلق پہلی مرتبہ بات نہیں ہو رہی، یہ باتیں 1999 کے بعد سے ہوتی آئی ہیں۔ عام انتخابات 2024 سے قبل نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر متعدد بار ان ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا مطالبہ کیا تھا جنہوں نے ان کی حکومت ختم کروائی تھی۔ ایسے میں شہباز شریف ہنگامی دورے پر لندن روانہ ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں چھوٹے بھائی نے میاں نواز شریف کو یہ بیانیہ ترک کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف جب وطن واپس آئے تھے تو ان کا بیانیہ بدل چکا تھا۔
لطیف کھوسہ نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ میں دو گروہ ہیں، نواز شریف والے گروہ کو باہر رکھا گیا ہے جبکہ شہباز شریف والا گروہ حکومت میں ہے۔ تاہم عام انتخابات 2024 کے بعد سے کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ میں کچھ لوگوں کو انتخابات میں ہروایا گیا ہے اور دوسری طرف والوں کو جتوایا گیا ہے۔ ہارنے والوں میں رانا ثناء اللہ اور جاوید لطیف جیسے رہنما شامل ہیں جو اپنی ہی جماعت کی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔