Get Alerts

تحریکِ عدم اعتماد پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں آرٹیکل 6 کی بازگشت

تحریکِ عدم اعتماد پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں آرٹیکل 6 کی بازگشت
سپریم کورٹ نے بالآخر اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ 3 اپریل 2022 کو غیر قانونی، غیر آئینی طور پر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بغیر اسے مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے اجلاس برخاست کرنے کے بعد فوری طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان پاکستان ٹیلی وژن پر نمودار ہوئے اور اعلان فرمایا کہ انہوں نے صدرِ پاکستان عارف علوی کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیج دی ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو جانے کے بعد وہ صدرِ پاکستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیجنے کے مجاذ نہیں تھے لیکن انہیں پہلے سے علم تھا کہ ڈپٹی سپیکر کیا فیصلہ دینے جا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے سمری بھی پہلے ہی تیار رکھی ہوئی تھی۔ اور پھر چند ہی منٹ کے اندر ٹی وی پر خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ صدرِ پاکستان نے سمری منظور کر لی۔ وہ چاہتے تو اس پر دو دن تک غور کر سکتے تھے لیکن انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس پر ایک لمحہ بھی ضائع کیا جائے۔ یاد رہے کہ ڈپٹی سپکیر قومی اسمبلی نے بھی ایک تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا اور اس فیصلے پر دستخط بھی ان کے اپنے نہیں بلکہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے تھے۔



مکمل فیصلہ پڑھیے: Supreme Court detailed verdict on 3 April Suo Motu







مراسلے میں موجود مواد سازش ثابت کرنے کے لئے ناکافی

سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں انہی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کو رد کیا ہے لیکن جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اپنے اختلافی نوٹس میں اس وقت کے حکمرانوں اور خصوصاً صدرِ پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر کو خوب کھینچا ہے اور اس ضمن میں سخت ترین الفاظ جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے ہیں جنہوں نے آرٹیکل 6 تک کا ذکر کر ڈالا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس حوالے سے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں، محض یہ لکھا ہے کہ یہ سب کچھ غیر آئینی تھا اور جانتے بوجھتے کیا گیا جس کے بعد آرٹیکل 6 لگانا یا نہ لگانا بہرحال پارلیمان کا ہی فیصلہ ہوگا۔ لیکن یہ الفاظ واضح کرنے کے لئے کافی ہیں کہ وہ اس غیر آئینی اقدام کی نوعیت کو کس قدر سنجیدہ سمجھتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ تفصیلی فیصلے میں زیادہ تر ججز نے جو فیصلہ سنایا، اس میں سابق تحریکِ انصاف حکومت کے حق میں کچھ لکھا گیا ہو یا انہیں کسی بھی جگہ حق پر قرار دیا گیا ہو۔ خاص طور پر سائفر کے معاملے پر تو واضح الفاظ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لکھا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کی جانب سے پاکستان کے امریکہ میں اس وقت کے سفیر کی جانب سے لکھے گئے مراسلے پر مزید سخت اقدامات کی تجویز نہ دینا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اس حوالے سے جو مواد موجود تھا، اسے غالباً سازش ثابت کرنے کے لئے ناکافی سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 31 مارچ 2022 کو پارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی اور خود حکومتی بنچز پر بیٹھے تحریکِ انصاف کے ارکان نے اس پر کوئی خاص گرمجوشی نہیں دکھائی۔

تحریکِ انصاف کے ساتھ ایک بار پھر نرمی برتی گئی

البتہ تفصیلی فیصلے میں کچھ معاملات پر سابقہ حکومتی جماعت کے ساتھ نرمی برتی گئی ہے۔ مثلاً سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی جانب سے کیے گئے تین غیر قانونی اقدامات سامنے رکھے گئے ہیں: 1) ارکان کی جانب سے تحریری مطالبے کے باوجود سپیکر کی جانب سے 14 دن کے اندر اندر اجلاس نہ بلانا؛ 2) ڈپٹی سپیکر کا بیرونی سازش کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کو نہ سننا؛ اور 3) ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اختیارات کا ناجائز استعامل کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بغیر اسے مسترد کرنا۔

پہلے معاملے پر چیف جسٹس صاحب لکھتے ہیں کہ اجلاس 14 دن کے اندر تو نہیں بلایا گیا لیکن بالآخر بلا لیا گیا، لہٰذا یہ مسئلہ ایک طرف رکھ دیا جائے۔ کیوں؟ اس حوالے سے انہوں نے کوئی قانونی جواز دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اسی طرح ڈپٹی سپیکر کی جانب سے حکومتی جماعت کا یہ مؤقف تسلیم کر لینا کہ اپوزیشن جماعتوں نے بیرونی طاقتوں کی ایما پر تحریکِ عدم اعتماد جمع کروائی براہِ راست غداری کا الزام ہی نہیں بلکہ ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کے کسٹوڈین کی جانب سے اس الزام پر فیصلہ سنانے کے مترادف تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس حوالے سے نہ سننا ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت تھی۔ تاہم، تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے یہ سپیکر یا اس کیس میں ڈپٹی سپیکر کی صوابدید ہے کہ وہ اپوزیشن ارکان کی رائے سننا چاہے یا نہ سننا چاہے۔

تاہم، تیسرے معاملے پر بات بالکل صاف تھی اور یہاں تفصیلی فیصلے میں بھی کسی قسم کی کوئی گنجائش نکالنا ناممکن تھا۔ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سپیکر یا ڈپٹی سپیکر کے پاس تحریکِ عدم اعتماد پیش ہو جانے کے بعد اس قسم کا قطعاً اختیار موجود نہیں کہ وہ رائے شماری کے بغیر اسے کسی بھی بنا پر مسترد کر سکے۔ ایک بار یہ تحریک پیش کر دی جائے تو اس پر ووٹنگ کروانا ہی ہوگی۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا اختلافی نوٹ

مگر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ ان کے فیصلے میں ان تمام غیر قانونی، غیر آئینی اقدامات کو بھول چوک نہیں قرار دیا گیا بلکہ واشگاف الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ یہ سب ایک منصوبے کے تحت کیا گیا۔ سپیکر غیر حاضر نہیں تھے، وہ ایوان میں موجود تھے تو پھر انہوں نے اجلاس کی کارروائی خود کیوں نہیں چلائی، وہ یہ بتانے سے قاصر رہے۔ "میں بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے آئینی احکامات کی کھلی خلاف ورزی کی۔ ڈپٹی سپیکر کے پاس اس روز اجلاس کی کارروائی کی صدارت کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی وہ وزیر اعظم کے خلاف پیش کی گئی تحریکِ عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔"

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کا محض یہ ایک اقدام ہی ان کی جانبداری ثابت کرنے کے لئے کافی ہے جو کہ میری نظر میں سپیکر کے عہدے کے شایانِ شان نہیں۔ ان کا یہی اقدام ان کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہے۔

آرٹیکل 6 کی کارروائی؟

اس کے بعد جسٹس مظہر عالم میاں خیل مزید سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آئین کے ابتدائی الفاظ میں اختیارات کا استعمال 'ایک مقدس امانت' قرار دیا گیا ہے اور یہ اختیار محض عوام کے منتخب نمائندے ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ "تاہم، صدر، وزیرِ اعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیرِ قانون نے اس مقدس امانت میں خیانت کی"۔ وہ لکھتے ہیں کہ ڈپٹی سپیکر کے قرارداد کو مسترد کرنے سے لے کر صدر کے اسمبلی توڑنے تک تمام اقدامات معمول کی کارروائی نہیں تھے بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آئین کے ساتھ ایک فراڈ کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد کو شکست دینے کے لئے اٹھائے گئے تھے۔ میری نظر میں آئین کے آرٹیکل 5 کو آئین کی خلاف ورزی کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ تاہم، یہ تمام اقدامات آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ ارکان پارلیمان پر چھوڑا جانا چاہیے کہ آیا وہ ایسے غیر آئینی اقدامات کے لئے دروازہ کھلا رکھنا چاہتے ہیں یا پھر ان کو مستقبل میں دہرائے جانے سے روکنے کے لئے اس حوالے سے کوئی ایکشن لیتے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل: عدالتوں نے نظریۂ ضرورت کے تحت فیصلوں کو قانونی جواز فراہم کیا۔ نقصان جمہوریت کو ہوا

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی اپنے فیصلے میں اٹارنی جنرل کی اس درخواست کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کہ چونکہ اب صدر نے یہ فیصلہ کر دیا ہے لہٰذا اب آپ بھی اس پر عملدرآمد ہونے دیجیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تو اب صدر نے کیا حکم جاری کیا اور انہیں کیا سمری موصول ہوئی اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی۔ دوسرے یہ کہ اٹارنی جنرل کی یہ استدعا نظریۂ ضرورت کے تحت کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس ملک نے پہلے ہی نظریۂ ضرورت کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے اور غیر آئینی قوتوں نے بار بار اسے استعمال کیا جب کہ یہی عدالت اس کو قانونی جواز فراہم کرتی رہی۔ لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ الٹا جمہوریت کو نقصان اٹھانا پڑا۔ عدالتوں کو ہر حال میں غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔ ملک میں ایسی کوئی غیر معمولی صورتحال نہیں تھی کہ جس سے ریاست کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا۔ ایک شخص کی خواہشات کے احترام میں ملک میں نئے انتخابات کی کوئی راہ نکالنا کسی پر لازم نہیں تھا۔ یہ فیصلہ پارلیمان کی مجموعی دانست پر ہی مبنی ہونا چاہیے، عدالت خود کو پارلیمان کے اختیارات تفویض نہیں کر سکتی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.