قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ بعد آرمی چیف ریٹائر ہو جائیں گے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

قانون نہ بن سکا تو 6 ماہ بعد آرمی چیف ریٹائر ہو جائیں گے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری
سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ 39 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی گئی، وزیراعظم کو ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے، 3 سال کی توسیع کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔


 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جاسکتی ہے؟ سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوا، درخواست گزار اگلی سماعت پر عدالت میں حاضر ہوا۔


تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی، ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل تین سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ہے۔


سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ قانون اور آئین میں مدت ملازمت میں توسیع کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کا قانون نہ ہونے سے جنرل کی مدت ملازمت پر غیر یقینی دور کرنے کے لیے ایسی پریکٹس کی جاسکتی ہے۔


تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معاملہ قانون سازوں کے بنائے گئے قانون کے تحت ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔


سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر قانون نا بن سکا تو چھ ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو بے ضابطہ نہیں چھوڑیں گے، اگر 6 ماہ تک ایسا نا ہو سکا تو صدر نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔

چیف جسٹس کا اضافی نوٹ

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تفصیلی فیصلے کے ساتھ اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وہ ساتھی جج سید منصور علی شاہ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں. انہوں نے لکھا کہ یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت، توسیع اور دوبارہ تعیناتی قانون کے زیر سایہ نہیں۔


جسٹس کھوسہ نے اضافی نوٹ کے آخر میں کنگ جیمز بائبل کا ایک قول بھی لکھا: ’آپ جتنے بھی بڑے ہو جائیں، قانون آپ سے اوپر ہی رہے گا۔‘

چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ مخصوص تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کاعہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے، آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے، غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کاکسی قانون میں ذکر نا ہونا تعجب انگیز تھا، آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔


اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے کا اہم پہلو کسی قانون کے دائرے میں نا آنا آئین کی بنیادی روح کے منافی ہے، پارلیمنٹ کی آرمی چیف کے عہدے سے متعلق قانون سازی غلطیوں کی تصحیح میں مددگار ہو گی۔