جون کی ایک دوپہر کو ہمارے C-130 طیارے نے پشاور کے پی اے ایف بیس سے اُڑان بھری اور ٹھیک 40 منٹ بعد افغانستان کی سرزمین پر لینڈنگ کی۔
طیارے سے اُترنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ کابل ائیرپورٹ پر افغان طالبان نے سخت سیکیورٹی کے انتظامات کئے تھے۔
ایئرپورٹ کے اطراف اور چھتوں پر سیکیورٹی اہلکار چاک و چوبند کھڑے تھے ۔ ایئرپورٹ پر افغان طالبان کی جانب سے ہمارا استقبال کیا گیا اور ہمیں سخت سیکیورٹی کے حصار میں دوسری جانب لے جایا گیا جہاں جرگہ ممبران کو کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل میں پہنچانے کے لئے دو کوسٹر بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ کچھ سیکیورٹی اہلکار ہماری حفاظت کے لئے بسوں میں سوار ہوئے تو درجنوں سیکیورٹی اہلکار گاڑیوں میں تھے اور ہمیں سخت سیکیورٹی میں ہوٹل پہنچایا گیا۔ کابل کے انٹرکانٹیننٹل ہوٹل کے اندر اور باہر 1500 سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔ افغان طالبان نے ہماری خوب مہمان نوازی کی۔ پہلے دن ہم نے بغیر کوئی مذاکرات کئے گزارا جبکہ اگلے دن 6 گھنٹے اور پھر اُس سے اگلے دن یہ مذاکرات 13 گھنٹے جاری رہے۔
پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے درمیان اس وقت امن مزاکرات جاری ہیں اور اس سلسلے میں قبائلی اضلاع سے 50 سے زائد ممبران پر مشتمل جرگہ خصوصی طیارے کے ذریعے پشاور سے کابل بھیجا گیا۔ یہ جرگہ قبائلی عمائدین، سیاستدانوں اور ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ہے جنہوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سینئر رہنماؤں سے 2 روز تک کابل کے انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں ملاقات کی اور فاٹا کے انضمام کے سب سے متنازع معاملے سمیت دیگر مطالبات پر بات چیت کی۔
ٹی ٹی پی کے ساتھ قبائلی جرگے نے افغان طالبان کی سرپرستی میں دو دن مذاکرات کئے۔ یہ جرگہ مذاکرات کے بعد واپس پاکستان پہنچ چکا ہے لیکن دونوں فریقوں نے سیز فائر سمیت مذاکرات کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نیا دور میڈیا نے تفصیلات جاننے کے لئے مذاکراتی جرگے میں شامل چار ممبران سے گفتگو کی۔ تمام ممبران نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
مذاکرات کا ماحول کیسا تھا؟
مزاکرات کا ماحول پر سکون تھا اور دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سنا اور مذاکرات کے دوران کوئی تلخی نہیں ہوئی۔
قبائلی جرگے کوکن نکات پر مذاکرات کرنے کا اختیار دیا گیا تھا؟
نیا دور میڈیا کو مذاکرات میں شامل چاروں ممبران نے تصدیق کی کہ کابل جانے سے پہلے اُن کی ملاقات پشاور میں سیکیورٹی فورسز کے ایک سینئر اہلکار سے ہوئی۔ اس ملاقات میں ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مزاکرات پر تفصیلی مشاورت ہوئی۔ جرگہ ممبران کے مطابق ان کو صرف یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ فاٹا انضمام قبول کرنے پر ٹی ٹی پی کو قائل کریں تاکہ وہ اس مطالبے سے دستبردار ہوجائے۔ ان کے مطابق ویسے تو طالبان کے ساتھ پاکستان واپسی سمیت سیز فائر پر بھی بات چیت ہوئی لیکن گفتگو کا محور زیادہ تر فاٹا انضمام رہا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے ان مذاکرات میں کون شامل تھے؟
جرگہ زرائع کے مطابق ویسے تو ٹی ٹی پی کے کئی ممبران ان مزکرات میں شریک تھے مگر تنظیم کے سربراہ مفتی نور ولی محسود، ٹی ٹی پی باجوڑ کے فقیر محمد اور ٹی ٹی پی مہمند کے عمر خالد خراسانی ان میں نمایاں تھے۔
افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات میں کس نے شرکت کی؟
ذرائع کی جانب سے ملنے والی معلومات کے مطابق حقانی نیٹ ورک کے سربراہ اور افغانستان کے موجودہ قائم مقام وزیر داخلہ سیراج الدین حقانی نے ان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کیا اور وہ ذاکرات کے عمل میں شریک رہے۔
ٹی ٹی پی کا رویہ کیسا رہا؟
جرگہ ممبران کے مطابق ٹی ٹی پی کی جانب سے اُن کی مہمان نوازی کی گئی اور عموما اُن کا رویہ نرم اور اچھا تھا۔ جرگے سے مزاکرات کے بعد جب وقفہ ہوتا تھا تو وہ آپس میں مشاورت کرتے تھے۔
ٹی ٹی پی کے تحفظات کیا ہیں؟
جرگہ ممبران نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا مشترکہ موقف کچھ یوں ہی تھا کہ مزاکرات تو چل رہے ہیں مگر وہ کسی بھی صورت پاکستان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی قیادت ہنسی مذاق میں یہی بات دہراتے تھے کہ آپ لوگ ہمیں جال میں پھنسانے آئے ہو ۔ ان کے مطابق طالبان کا موقف تھا کہ ان کے ساتھ ماضی میں کئی بار مذاکرات کئے گئے مگر ہر بار دھوکہ دیا گیا اور فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔
سیراج الدین حقانی کا موقف کیا تھا؟
جرگہ ممبران کے مطابق سیراج الدین حقانی پاکستان سے آئے ہوئے جرگے اور ٹی ٹی پی کو بار بار یہی بتا رہے تھے کہ دونوں فریقوں کا تعلق ایک ہی ملک سے ہے اور دونوں صلح کرنے کی کوشش کرلو۔ سیراج الدین حقانی کا موقف تھا کہ ہم معاشی اور سفارتی طور پر آگے بڑھ کر افغانستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔
سیراج الدین حقانی کا موقف تھا کہ ہم ٹی ٹی پی کو افغانستان سے باہر نہیں نکال سکتے کیونکہ ان کے ہم پر احسانات ہیں اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہوں۔ سیراج الدین حقانی کا موقف تھا کہ اگر ٹی ٹی پی اور پاکستان کے امن مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پھر ٹی ٹی پی کو افغانستان کے بارڈر سے دور کسی دوسرے حصے میں منتقل کیا جائے گا ۔
ان کے مطابق گزشتہ کچھ مہینے میں ہم نے پاکستان سمیت مختلف بارڈرز کے گیٹ ویز سے 19 ارب روپے کا ریوینیو اکٹھا کیا ہے اور تجارت اس وقت ہماری اولین ترجیح ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان کی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کی وجہ سے افغانستان جنگ کا مرکز رہا اور اب ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے فاٹا انضمام پر کیا تحفظات ہیں؟
جرگہ ممبران کے مطابق ٹی ٹی پی کے اس حوالے سے دو تحفظات ہے۔ پہلا یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قبائلی اضلاع کو اس وجہ سے خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا کہ ہماری وجہ سے امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہوئی اور تب حکومت نے فیصلہ کیا کہ فاٹا کو مستقبل میں لاقانونیت سے بچانے اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لئے اصلاحات کی جائیں۔ جس کے بعد انضمام ہوا اور قبائلی اضلاع میں پولیس اور عدلیہ کے نظام کو لایا گیا۔ جبکہ دوسری جانب طالبان نے مسلسل یہی موقف اپنایا کہ مقامی لوگ فاٹا انضمام سے خوش نہیں ہیں اور ہماری وجہ سے اُن کو سزا دی گئی ہے۔
انضمام کی مخالفت کی دوسری وجہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹی ٹی پی قبائلی اضلاع کی اس پٹی کو یاغستان کا علاقہ سمجھتے ہیں جو ماضی میں مجاہدین کا مسکن تھا۔جرگہ ممبران کے مطابق ہم نے اُن پر واضح کیا کہ فاٹا انضمام کو واپس کرنا ناممکن ہے اور مقامی لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ جو قانون پاکستان میں لاگو ہے وہ ہم پر بھی لاگو ہو۔
کیا پاکستان نےٹی ٹی پی کو سیاسی پارٹی بنانے کی آفر کی ہے؟
ٹی ٹی پی کے شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ قبائلی اضلاع میں مسلح واپسی چاہتی ہے۔ جرگہ ممبران کے مطابق ٹی ٹی پی کا موقف تھا کہ سیکیورٹی اداروں نے اس سے پہلے جو ان کے ساتھ مزاکرات کئے تھے ان میں یہ آپشن دی گئی تھی کہ مسلح واپسی ناممکن ہے کیونکہ اس عمل سے ان پر بین القوامی دباؤ آئے گا۔ اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ اپ واپسی کریں اپنی سیاسی پارٹی رجسٹرڈ کریں اور اپنے مطالبات کے لئے پارلیمانی جدوجہد کریں۔
غیر مسلح واپسی پر اُن کے کیا تحفظات ہے؟
جرگہ ممبران کے مطابق ٹی ٹی پی نے غیر مسلح واپسی پر کھل کر تحفظات کا اظہار کیا اور انھوں نے اپنے تحفظات سے ہمیں آگاہ بھی کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں ہمارے ساتھ دھوکہ کرکے ہمارے کارکنوں کو نہ صرف نشانہ بنا کر مارا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کارکنوں کو ٹارچر سیلز میں بھی مارا گیا، جو ہم سے غیر مسلح واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں بنیادی طور پر وہ ہمیں پھنسانا چاہتے ہیں۔
مکانات کی آباد کاری اور مالی وظائف پر کیا بات ہوئی؟
ٹی ٹی پی نے اس موقف کو بھی دہرایا کہ ہماری واپسی سے پہلے ہمارے تباہ شدہ مکانات کو تعمیر کیا جائے اور جو ہمارے جو جنگجو اس جنگ میں مارے گئے ہیں ان کو ماہوار بنیادوں پر معاوضہ شروع کیا جائے۔ جرگہ ممبران کے مطابق ہم نے ان کو یقین دہانی کرادی کہ حکومت پاکستان اور فوجی قیادت اس شرط کو ماننے کے لئے تیار ہے۔
آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
ذرائع کی جانب سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ٹی ٹی پی سیز فائر کو اس وقت تک جاری رکھنا چاہتی ہے جب تک مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچیں۔ دونوں فریقوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مزاکرات کا سلسلہ منقطع نہیں ہوگا اور مزاکرات جاری رہینگے۔