طالبان اور افغان رہنمائوں کے مذاکرات، غیرمعمولی پیشرفت کا دعویٰ

طالبان اور افغانستان کے حزب اختلاف کے رہنمائوں نے روس میں ہونے والے مذاکرات میں غیر معمولی پیشرفت کا دعویٰ کیا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ محض کھوکھلا دعویٰ دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندے شامل تھے اور نہ ہی جنگ بندی کا کوئی اعلان ہوا ہے۔

اسلامی عسکریت پسندوں نے شہر کے وسط میں قائم ایک ہوٹل میں دو روز سے زیادہ وقت قیام کیا، انہوں نے اس دوران متعدد افغان سیاست دانوں سے ملاقات کی جن میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور سابق جنگجو قائد عطا محمد نور بھی شامل ہیں۔

دونوں فریقین کی جانب سے جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دوطرفہ مذاکرات تعمیری رہے اور ممکنہ جنگ بندی سمیت مختلف معاملات جیسا کہ اسلامی نظام کی مضبوطی اور خواتین کے حقوق پر غور کیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق، فریقین کے درمیان مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے تاہم کچھ مسائل پر مزید بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ طالبان افغان حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں جنہیں ان مذاکرات سے الگ رکھا گیا، چناں چہ یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ان مذاکرات کے کوئی فیصلہ کن نتائج برآمد ہو سکیں۔



افغان صدر اشرف غنی نے رمضان المبارک کے آغاز پر ملک بھر میں جنگ بندی کی پیشکش کی تھی جسے طالبان کی جانب سے مسترد کر دیا گیا تھا۔

اور جب عسکریت پسندوں اور امریکہ کے درمیان مذاکرات جاری تھے تو اس وقت امریکہ نے بھی پرتشدد کارروائیاں کم کرنے کا مطالبہ کیا جسے طالبان نے رد کر دیا۔

یہ مذاکرات کا دوسرا دور تھا جو روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہوا۔

مذاکرات کا آغاز افغانستان اور روس کے دوطرفہ تعلقات کے ایک سو برس مکمل ہونے پر کیا گیا جس میں ابتدا میں روس میں موجود افغان سفیر کو تقریر کرنے کی اجازت دی گئی لیکن بعد میں وہ کسی بھی تقریب میں شامل نہیں ہوئے اور ہوٹل کی لابی میں بیٹھنے پر مجبور ہو گئے۔

طالبان کے مرکزی رہنماء شیر محمد ستنکزئی کہتے ہیں کہ طالبان خلوص نیت کے ساتھ خطے میں امن کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا، افغانستان سے قبضہ ختم ہونا چاہئے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم امن کے خواہاں ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز کے بعد سے عسکریت پسندوں کا یہ کہنا ہے کہ ان کی سوچ بالخصوص حقوق نسواں کے حوالے سے تبدیل ہوئی ہے جو 1996 سے 2001 تک ان کے دور حکومت میں بری طرح کچلی گئی تھی۔

چناں چہ اب طالبان ایک ایسا افغانستان چاہتے ہیں جہاں خواتین، مرد اور بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے حقوق کی ضمانت ہو تاہم ان حقوق کا تعین شریعت اور قبائلی روایات کے مطابق کیا جائے گا۔