پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ دعا زہرہ ایک اور انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئی یا نہیں؟
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے مطابق، پنجاب اور سندھ میں سمگلروں کی سب سے زیادہ رسائی ہے، جن کی تعداد 30 سے 35 کے درمیان ہے۔ انسانی سمگلنگ بہت سارے ممالک کا مسئلہ ہے، جس میں لاکھوں لوگ ملوث ہیں، پھر بھی پاکستان ان چند مٹھی بھر ممالک میں سے ایک ہے جو اب بھی انسانوں کی سمگلنگ کو روکنے اور سزا دینے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
دنیا کا ہر ملک ان جرائم سے متاثر ہے اور ناصرف ممالک بلکہ اس کے عوام بھی۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 20000 ایسے بچے ہیں جن کو جبری بھکاری کے طور پر غلامی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی غیر قانونی تجارت 30 بلین ڈالر کی سالانہ قیمت کے ساتھ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ گھریلو سمگلنگ، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی، پاکستان میں سب سے بڑے خدشات میں سے ایک ہے۔ تمام ممالک، امیر اور غریب، کا کام ایسے مجرموں کی نشاندہی کرنا اور ان پر مقدمہ چلانا ہے جو مایوس افراد کا شکار ہوتے ہیں، ساتھ ہی انسانی سمگلنگ کے متاثرین کی حفاظت اور مدد کرنا، جن میں سے بہت سے لوگوں کو بہتر زندگی کی تلاش میں خوفناک مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور واک فری فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق آج جدید غلامی کے شکار افراد کی تعداد تقریباً 40 ملین ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جو اس تجارت کا شکار رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ غربت، عوام کے لیے وسائل کی کمی، آگاہی کا فقدان، تعلیم کی کمی اور حکومت کی جانب سے ایسے غیر انسانی طریقوں کے خلاف کارروائی میں ناکامی ہے۔
کئی وجوہات کی بنا پر پاکستان میں خواتین اور بچے انسانی سمگلنگ کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ پاکستان ان غیر قانونی گروہوں کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے جو بچوں کو اغوا کرنے، خواتین کی عصمت دری اور جنسی زیادتی کے لیے ذمہ دار ہیں۔ خواتین کو جسم فروشی کے لیے جنسی غلاموں کے طور پر فروخت کرنے کے علاوہ دیگر گھناؤنے جرائم میں بھی ملوث ہیں۔
خواتین کی غلامی اور سمگلنگ پوری تاریخ میں بڑے پیمانے پر رہی ہے جس کے دوررس نتائج پاکستان تک پہنچے ہیں۔ جبری شادیاں، جنسی حملے اور جسمانی تشدد ان طریقوں میں سے ہیں جن میں خواتین کا استحصال ہوتا ہے۔ غربت نے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے غریب خاندانوں کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی رضامندی کے بغیر، پیسوں کے عوض شادی کریں، کچھ کو دیہی علاقوں میں قرض کی ادائیگی کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔
لڑکیوں کو ان کے والدین جبری شادیوں، گھریلو خدمت اور جسم فروشی میں بیچ دیتے ہیں، جبکہ خواتین کو قبائلی گروہوں کے درمیان ادائیگی اور تنازعات کے حل کے لیے تبادلہ کیا جاتا ہے. ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد زون وقار احمد چوہان نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ''ایجنسی انسانی سمگلروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری رکھے گی''۔
حال ہی میں، دعا زہرہ نامی لڑکی، کراچی میں اپنے گھر کے باہر سے 16 اپریل کو لاپتہ ہو گئی۔ دعا کے والدین نے ایک فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی جس میں الزام لگایا گیا کہ ان کی بیٹی کو اس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ کچرا پھینکنے کے لیے گھر سے نکلی تھیں۔
اس عمل نے بڑے پیمانے پر غم وغصہ پیدا کیا، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، اس نے حکام کو نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ سوشل میڈیا پر اس کی گمشدگی کی خبریں چھائی ہوئی تھیں، مشہور شخصیات اور عام لوگ اس معاملے کو اجاگر کر رہے تھے کیونکہ سب کا خیال تھا کہ یہ انسانی سمگلنگ کا ایک اور کیس ہے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بندھوا مزدوروں میں 70 فیصد سے زیادہ بچے ہیں۔
سمگلر نچلی ذات کے ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر مائنرز کو بھی خاص طور پر جبری اور بندھوا مزدوری کے لیے نشانہ بناتے ہیں۔ سمگلر بچوں کو بھیک مانگنے، گھریلو کام کرنے، چھوٹی دکانوں اور جنسی سمگلنگ میں جبری مشقت کے لیے خریدتے، بیچتے، کرایہ پر لیتے اور اغوا کرتے ہیں۔
پولیس نے لاپتہ لڑکی کی تلاش میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے۔ جوڑا بہاولنگر سے بازیاب ہو گیا۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی پولیس پارٹی نے لاہور پولیس کے ساتھ مل کر بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں میں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ظہیر کے رشتہ دار کے گھر پر چھاپہ مارا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کارروائی کے دوران دعا اور ظہیر کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ کراچی پولیس کا کہنا تھا کہ دعا زہرہ کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع پر چھاپہ مارا گیا۔ حکام بازیاب ہونے والی لڑکی کے بیانات ریکارڈ کریں گے۔
پھر خبر ملی کہ کراچی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ نے میڈیا کو بتایا کہ دعا کو بحفاظت حراست میں لے لیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوجوان ظہیر احمد، جس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ دعا کے ساتھ شادی کا معاہدہ کیا ہے، باقاعدگی سے اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں اور کبھی بھی موبائل فون استعمال نہیں کرتے، جس کی وجہ سے حکام کے لیے ان کا سراغ لگانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
دعا کو اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ویڈیوز میں دیکھا گیا اور عوام کا خیال ہے کہ انہیں متعلقہ گینگ جو اس چیز میں ملوث ہیں، نشہ دیا گیا ہے اور زور زبردستی کر کے بلوایا جا رہا ہے اور دعا کے والد کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی 14 سال کی ہے اور اس کی عمر کی حیثیت سے شادی کرنا غیر قانونی ہے۔
تاہم دعا کا بیان بالکل مختلف ہے۔ کیس ابھی عدالت میں ہے۔ دعا کا معاملہ انسانی سمگلنگ جیسا لگتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک پورا گینگ ہے جسے ماہر گینگسٹرز کا گروہ چلا رہا ہے جو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں۔ لڑکوں کو زبردستی نوجوان لڑکیوں کو شادی کے جانسے میں پھنسانے کا کہتے ہیں اور بعد میں دونوں کو جسم فروشی میں استعمال کرتے ہیں۔
وہ چھوٹے بچوں کو اس حد تک ٹارچر کرتے ہیں کہ وہ پولیس اور اپنے گھر والوں کے سامنے نہیں بولتے۔ دعا کے والد کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیٹی محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے اور وہ جو کچھ کہہ رہی ہیں وہ دباؤ میں آنے کی وجہ سے ہے۔ سندھ کا قانون بالکل واضح ہے کہ شادی کے لیے لڑکی کی عمر 18 سال ہونی چاہیے۔ دعا کے معاملے میں، حکام کے لیے متعلقہ دستاویزات کی تصدیق کرنا بہت ضروری ہے۔ جسٹس جنید غفار کا کہنا ہے کہ”اس کیس کی مناسب تحقیقات کی جائیں گی اور دعا زیر مشاہدہ ہوگی۔”
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے پیمانے کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس کی تمام شکلوں میں انسانی سمگلنگ کے دائرہ کار کا تعین کرنے کے لیے جامع سروے کرنا چاہیے۔ صوبائی انتظامیہ کو، قومی حکومت کے ساتھ مل کر، پسماندہ خاندانوں کو ملازمت کی مہارت فراہم کرکے انہیں بااختیار بنانے کے لیے پیشہ ورانہ اور تعلیمی پروگرام قائم کرنے چاہیں۔
اس کے ساتھ ہی انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ان غریب خاندانوں کے لیے آمدنی کا متبادل ذریعہ دینے کے لیے ایک قومی فنڈ بھی قائم کیا جائے جو منافع کے لیے اپنے بچوں اور خواتین کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
شارپ پاکستان جو کہ ایک ہیومن ٹریفکنگ کو روکنے والی این جی او ہے اُس کے چیئرمین سید لیاقت بنوری کا کہنا ہے کہ "حکومت انسانی اسمگلنگ کے مسئلے کے بارے میں آگاہی بڑھانے اور مقامی طور پر سرگرم گروہوں کو بے نقاب کرنے میں مدد کے لیے این جی اوز کے ساتھ مل کر سماجی ترقی کے پروگرام قائم کر سکتی ہے۔
ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے، قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے کہ پولیس پر چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انہیں جسم فروشی کے نیٹ ورکس کے ساتھ تعاون کرنے سے روکا جا سکے۔ سرکاری ملازمین کو انسانی اسمگلنگ اور تارکین وطن کی سمگلنگ کے درمیان فرق کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے، اور سمگلنگ کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی پراسیکیوٹرز کا تقرر کیا جانا چاہیے۔