عورت مارچ پر مرد سیخ پا کیوں؟

عورت مارچ پر مرد سیخ پا کیوں؟
میرا جسم میری مرضی پر اس قدر سیخ پا ہونے والے آدمیوں کے لئے اس بات کے بدترین معنی اخذ کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اس پدر شاہی معاشرے میں صدیوں سے عورت کو ایک جسم اور جسم میں بھی جنسی اعضا کے علاوہ وہ کسی روپ میں جانتے ہی نہیں۔

مگر جسم صرف جنسی اعضا کا نام نہیں ہے۔ جسم میں دل و دماغ، احساسات، جذبات، رگوں میں دوڑتا لہو، چہرے پر کھلی مسکراہٹ، آنکھوں سے جاری آنسو، زندگی کی حرارت اور جذبات کی گری سب کچھ ہوتا ہے۔ عورت محض گوشت پوست کا پتلا نہیں بلکہ احساسات، جذبات اور خواہشات کا مجموعہ بھی ہے۔

میرا جسم میری مرضی کو معترض حضرات اس تناظر میں دیکھیں کہ اس معاشرے میں آج تک پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی عورت کو اپنی مرضی سے اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا محدود اختیار ہے۔ اس کو پڑھایا جاتا ہے، کپڑے زیور بھی لے کر دیے جاتے ہیں، تفریح کے مواقع بھی ہیں مگر جہاں شادی، نوکری، کاروبار یا فن کی بات ہو تو وہاں ہر چیز گھر کے مردوں کی مرضی سے مشروط کر دی جاتی ہے۔

’میرا جسم میری مرضی‘ ایک استعارہ ہے۔ اس رضامندی، اس مرضی کا جو کسی بھی انسان کو اپنے وجود پر ہونی چاہیے۔



اسی مملکتِ خداداد میں کتنے واقعات ایسے ہوئے جہاں مرضی کی شادی کرنے پر نچلے طبقے سے لے کر امیر گھرانوں میں، عورتوں کو قتل کر دیا گیا۔

دراصل انکار کو اب بھی باقاعدہ بغاوت تصور کیا جاتا ہے اور عورت کی عمومی حیثیت اب بھی ایک ملکیت کی ہے۔ اس کی آزادی آدمیوں کے پاس گروی ہے۔

چند دن پہلے کوٹ ادو میں ایک 21 سالہ لڑکی کو اس کے ایک ماہ کے چھوٹے بچے سمیت گولیاں مار کر زندہ درگور کر دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ کوئی بتائے کہ اب اسلام میں دیے گئے حقوق کہاں گئے؟ یہ سوچ، یہ احساس کہ بہن، بیٹی، بھانجی کو سفاکی سے قتل کیا جا سکتا ہے آخر کہاں سے جنم لے رہا ہے؟ یہ سوچ کہ لڑکی کی پسند کی شادی مردوں کی غیرت کا معاملہ ہے آخر کس نے راسخ کیا؟

یہ سو فیصد اس سوچ کا عکاس ہے کہ عورت کو مرد اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی منشا کو بغاوت۔ آخر عورت کا خود پر حق کیوں متنازع ہے؟ کیوں اس کے فیصلے اب بھی اس کی منشا کے بغیر کیے جاتے ہیں؟

ان گنت واقعات ہیں کس کس کا ذکر کریں کہ لڑکیوں کے انکار پر ان کے چہروں پر تیزاب پھینکے گئے، قتل کی گئیں۔ وجہ یہ ہے کہ مجرموں کو یقین ہوتا ہے کہ وہ ان جرائم کے ارتکاب کے بعد صاف بچ جائیں گے۔

لڑکیوں کے قتل کے کچھ دیر بعد والدین بھی اس مقدمے میں دلچسپی کھو دیں گے اور اللہ اللہ خیر صلہ۔

عورتیں آدمیوں کی زندگی میں سپیئر ویل نہیں ہیں۔ ان کا کام شوہر کے ساتھ اس کے گھر والوں کی مسلسل خدمت نہیں ہے۔ دینی کتب میں کچھ لکھ دیے جانے سے حقوق مل نہیں جاتے۔

اس طرح تو پاکستان کا آئین بھی ہر شہری کو حقوق دیتا ہے مگر کیا وہ تمام حقوق جو آئین میں درج ہیں شہریوں کو مل رہے ہیں؟ ہرگز نہیں۔

اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے طویل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ حقوق تب حاصل ہوتے ہیں جب ریاست اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ اگر کسی نے کسی دوسرے کے حقوق سلب کیے تو اس کے نتائج اور سزا بھگتنا ہوگی۔ خالی پیلی کتابوں میں لکھ دینے سے نہ حقوق ملتے ہیں اور نہ ہی یہ حقوق ملنے کی ضمانت ہے۔

جب یہ پتہ ہو کہ عورت پر ظلم کرنے سے جیل ہوگی، جرمانہ ہوگا یا چھوٹی بچی پر جبر کرنے یا زبردستی کرنے سے ریاست حرکت میں آئے گی تو لوگ احتیاط کریں گے ورنہ بچپن کی شادیاں، بچیوں کو خرید کر ان کے ساتھ نکاح کے نام پر اور اس کی آڑ میں ان کا جنسی استحصال ہر روز کا معمول ہے۔ لڑکیوں کو معمولی باتوں پر قتل کر دینا روٹین کی خبر۔



جس ملک میں دادرسی کے لئے آنے والی لڑکیوں کو پولیس تھانوں، کچہریوں، حتیٰ کہ عدالتوں میں جج تک ریپ کر لیں، جہاں گھریلو ملازمہ کے طور پر چھوٹی چھوٹی بچیوں کو کوٹھیوں میں فروخت کر دیا جائے، جہاں ان کو مار مار کر ان کی چمڑی ادھیڑ دی جائے اور کرنٹ لگا کر ان کے جسموں کو جلا دیا جائے، جہاں ان کی لاشوں کو گٹر میں پھینک دیا جائے، جہاں معصوم بچیوں کو اپنے مفاد کے لئے بیچ دینا جائز ہو، اس معاشرے کو فحاشی ’میرا جسم میری مرضی‘ میں نظر آتی ہے؟

صد حیف ہے ان لوگوں پر جو سب کچھ دیکھ کر بھی آنکھوں پر پٹی باندھنا چاہتے ہیں اور ہر صورت میں denial میں رہنے پر بضد ہیں۔

انہیں وہ عورتیں مظلوم نہیں لگتیں جو سالہا سال اپنے بدمزاج شوہروں کے ہاتھوں ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی اذیت کا شکار ہوتی ہیں اور ان کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے اور گھر بچانے کی تاکید چاہے شوہر زنا، شراب نوشی، حرام خوری اور پانچوں عیبِ شرعی رکھتا ہو لیکن طلاق بہرحال اس عورت کے لئے ایک داغ اور گالی ہے، چاہے وہ ساری زندگی ایک زندہ لاش کے طور پر گزارے۔

معاشرہ منافقت سے غلیظ اور بے حس ہے۔ ایسے میں عورتوں کی تحریک اور عورت مارچ ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

مطالبہ ریاستِ پاکستان سے ہے کہ عورتوں کے حقوق کو یقینی بنایا جائے اور جو ان حقوق کی پامالی کرے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ ’میرا  جسم میری مرضی‘ کا حق آئینِ پاکستان دیتا ہے۔ حق جینے کا، بات کرنے کا، اور کسی بھی جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا۔

مصنفہ مددگار ٹرسٹ کی چیئر پرسن ہیں اور متعدد اخبارات کے لئے کالم لکھتی رہتی ہیں۔