شبو دادا نے مردوں کے ساتھ کام کرنے کے لئے خود کا نام شبنم سے بدل کر شبو دادا رکھا۔ شبو دادا کے شوہر بیمار پڑے تو انہوں نے اپنے ہی علاقے میں گزرمعاش کے لئے چھوٹی سے دکان کھول لی۔
ماضی میں یہ علاقہ جہاں یہ بہادر خاتون رہتی ہے، دہشت کی علامت تھا اور منشیات ودیگر جرائم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اس بہادر خاتون نے اپنا نام جب شبودادا رکھا تو ان کو کوئی اوباش تنگ بھی نہیں کرتا۔ وہ اس وقت اپنے علاقے میں ایک بہادر خاتون سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ شبو نے معاشرے کی دیگر خواتین کے لئے مثال قائم کر دی ہے۔ وہ خواتین جو ڈر کے مارے یا معاشرے میں تنگ نظری کی وجہ سے کوئی کام نہیں کر سکتیں، ان کے لئے ایک مثال ہے۔
حیدر آباد کے علاقے شیدی گاؤں میں شبودادا نے مردوں کا کام کر کے تمام مردوں کو پریشان کر دیا ہے۔ اس بہادر عورت کے کام کو دیکھنے کے لئے کثیر تعداد میں مردوں کا رش نظر آتا ہے۔ شبو دادا نے اپنے شوہر کی بیماری کے بعد اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے اپنے آپ کو بے بس اور پریشان پایا۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا یا بھیک مانگنا اچھا نہیں سمجھا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے مردوں کی مارکیٹ میں سائیکلوں کے پنکچر اور گیمز کی دکان کھول دی ہے اور اپنے آپ کو مردوں کے سامنے مضبوط کرنے کے لئے اپنا نام شبنم سے بدل کر شبو دادا رکھ دیا ہے۔ شبو دادا گھر کے کچن کے لئے 700 سے 1000 تک روزانہ کماتی ہے۔ وہ ابھی بھی سندھو دریا کے کنارے کے پاس جھوپڑ پٹی میں رہائش پذیر ہے۔
شبو دادا کا کہنا ہے کہ میرے شوہر مزدوری کر کے گھر کا چولہا جلاتے تھے۔ وہ اچانک بیمار پڑ گئے۔ جس کی وجہ سے ہم فاقے کاٹنے پر مجبور ہو گئے۔ شوہر کے علاج و معالجے کے لئے رقم موجود نہیں تھی۔ یہ صورتحال دیکھ کر مردوں کے بیچ میں خود کو کمزور عورت سمجھنے کے بجائے خود کو مرد تصور کر کے دکان کھول لی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرا اصل نام شبنم خاصخیلی ہے۔ سندھ کے قدیمی شھر شھدادپور سے پندرہ سال پھلے شادی کرکے وہ حیدرآباد منتقل ہوئی۔ انہون نے مزید بتایا کہ میری پھلے سائیکلیں بھی چوری کی گئی اب دادا نام رکھنے کے بعد اب کوئی چوری بھی نہیں کرسکتا، اس نے بتایا کہ مجھ سے بال اور اسنکور گیم میں بھی کوئی جیت نہیں سکتا، بچوں کو کرائے پر پھلے چار سائکلیں تھیں جبکہ دو چوری ہوگئی تھی۔ شبودادا سائیکلیں کرائے پر دینے کے بعد وقت کا اندازہ بھی ایک پرانی گھڑیال سے دیکھ کر کرتی ہیں، جس گھڑیال کا بیلٹ بھی نہیں ہے ، شبودادا کے دو جوان بیٹے ہیں ایک بیٹا میٹرک میں پڑرہا ہے جبکہ دوسرا انٹرمینڈیٹ میں زیر تعلیم ہے ۔
شبودادا جہاں رہتی ہے وہ علاقہ کسی دورمیں کرائیم کے حوالے سے مشہور رہا ہے سابقہ ایس ایس پی عرفان بلوچ نے اپنے دور میں ڈکیت گروپ کا خاتمہ کرکے امن امان قائم کیا ،ہوسکے شبودادا نے اس ماحول کو دیکھ کر ہی اپنا نام شبنم بدل کر شبودادا رکھا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کھیلوں کی سرگرمیوں یعنی کھیلوں سے وابستہ ادارا کھول کر شبو کو دادا جیسی خواتین کو نوکری دی جاِئے ،شبودادا نے اپنا نام مردانہ رکھ کر ایک مثال قائم کی ہے۔
ٹیگز: Hyderabad, Pakistan Womenpower, Shabu Dada, Women, پاکستان, حقوق نسواں, حیدر آباد, شبو دادا, عورت