اپنے مرحوم دادا جی کے نام

اپنے مرحوم دادا جی کے نام
ابھی حال ہی میں مورخہ 24 ستمبر کو میرے دادا جی کی وفات ہوئی تو جی میں آیا کہ ان کے حالات زندگی کے بارے میں کچھ ذکر کروں۔ دادا جی مرحوم کی پیدائش 1923 میں ضلع سیالکوٹ میں ہوئی اور وہ ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں مالوکے کے رہائشی تھے۔ پانچ بہن بھائیوں میں ان کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ پڑھائی میں کافی ذہین تھے ۔ بالخصوص ریاضی کے مضمون پر وہ موجودہ دور کے ماسٹرز کو بھی مات دے دیا کرتے تھے۔ پڑھائی کی خاطر میلوں کا سفر پیدل طے کر کے سکول جاتے اور اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرتے مگر گھر میں غربت کا ڈیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے شوق کے باوجود پڑھائی جاری نہ رکھ سکے اور اس زمانہ میں پانچ جماعتیں پڑھنے کے بعد سکول کو خیرباد کہنا پڑا۔

گھر کے حالات کی وجہ سے تقریباً سترہ (17) برس کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ ان دنوں دوسری عالمی جنگ کا دور دورہ تھا اور متحدہ برصغیر پر گورے کا قبضہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ کی طرف سے فوج میں شامل ہوۓ۔فوج میں بھرتی ہونے کے بعد آپ کو عالمی جنگ میں برطانیہ کی طرف سے دنیا کے مختلف ملکوں بالخصوص شام،عراق،مصر وغیرہ میں جانے کا بھی اتفاق ہوا۔

ایک دفعہ وہ بتانے لگے کہ ان کی فوجی ذمہ داریاں ان کے افسران کو بہت پسند تھیں۔ایک گورے کرنل نے انہیں کہا کہ کاش وہ دس جماعتوں تک پڑھے ہوتے تو ان کی بطور کمیشن افسران میں شمولیت ہر صورت ہو جاتی۔ پاکستان کے بننے کے بعد وہ پاکستانی فوج کا حصہ بنے اور مختلف محاذوں پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔جن میں 1948 کی جنگ، 1965 اور 1971 کے معرکہ جات شامل ہیں۔

فوج میں ملک کا تحفظ کرنے کے علاوہ آپ کھیلوں میں بالخصوص دوڑ میں آپ اکثر دوسروں پر سبقت لے جاتے تھے۔فوج میں آپ کو بعض تعریفی سرٹیفکیٹس اور تمغہ جات سے بھی نوازا گیا۔ ان کو اللہ پاک نے صحت سے نوازا تھا جو کہ آج کل بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔میں نے ان کو 92 برس کی عمر تک سائیکل پر میلوں کا سفر کرتے دیکھا ہے اور وہ یہ سائیکل کا سفر محض خود کو چاق و چوبند رکھنے کے لیۓ کرتے تھے۔ یہ سب یقیناً ان پراللہ پاک کے خاص فضل کا نتیجہ تھا۔ وہ پاکستانی فوج سے بے حد مخلص تھے کہ کبھی بھی فوج کے خلاف کوئ بات سننا پسند نہیں کرتے تھے۔
انہیں صدر ایوب کے دور میں فوج نے غالبا سستے داموں کچھ زمین سے نوازا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے پاس کچھ رقم موجود تھی۔ایک دفعہ مجھے بتانے لگے کہ ان کے پاس ایک چوائس موجود تھی۔میں نے پوچھا کہ کیسی چوائس؟بولے بیٹا میرے پاس یہ چوائس تھی کہ یا تو میں اپنی رقم سے کچھ اور زمین خرید کر اس میں اضافہ کرتا اور بیٹوں کو کہتا کہ تم لوگ اپنی زمین پر کام کرو گے اور یا میں بیٹوں کی پڑھائ میں رقم صرف کرتا،تو میں دوسری
چوائس کو ترجیح دی کیوں کہ اولاد کی تعلیم پر روپیہ خرچ کرنا ہی اصل انویسٹمنٹ ہے۔

ان کی اردو کی خطاطی کا بھی کوئی جوڑ نہیں تھا اور اکثر کچہریوں کا سامنا کرنے والے گاؤں کے لوگ ان کے پاس مشورے کے لیۓ اور اردو کی درخواست لکھانے کے لیۓ آتے تھے۔گاؤں کے نمبردار کی حیثیت سے وہ گاؤں والوں کے کام آنا اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے تھے۔

وہ 92 برس کی عمر تک روزانہ کی بنیاد پر ڈائری ضرور لکھتے تھے۔ایک دفعہ میں نے پوچھا کہ آپ کی صحت والی زندگی کا راز کیا ہے تو بولے کہ میں خوش رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اگر کوئی نقصان ہو جائے تو اس پر جی جلانے اور پریشان ہونے کی بجائے یہ سوچتا ہوں کہ مستقبل میں اس سے کیسے بچنا ہےاور کیسے جینا ہے۔

وہ ایک عاجز انسان تھے جو کسی ضرورت مند کے ساتھ زمین پر بیٹھنا پڑتا تو وہاں بھی بیٹھ جاتے اور اس کے کام آنے کی کوشش کرتے۔ان کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے چاہے ان کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ مجھے کہا کرتے تھے کہ میں نے کبھی کسی سے مانگ کر کچھ نہیں لیا بلکہ دینے کی کوشش ہی کی ہے چاہے وہ اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی آخری عمر میں اس بات سے بھی خوشی محسوس کرتے تھے کہ ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد بھی تعلیم حاصل کر کے خوشحال زندگی بسر کر رہی ہے۔ وہ یقیناً ایک غازی اور محب وطن انسان تھے۔
اللہ پاک ان کی مغفرت فرماۓ اور ہر طرح کی آسانیاں پیدا کرے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔