'عمران خان کو وزیر اعظم بناؤ اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو باہر نکالو' آپریشن میں شامل تمام بڑے جرنیلوں کے نام سامنے آ گئے۔ اسد طور کے مطابق فیض حمید اس سب میں مرکزی کردار کے طور پر ابھرے تھے لیکن ان کی یہ بات بھی سچ ہے کہ 'ایک میجر جنرل اکیلا تو کسی وزیر اعظم کو اقتدار سے باہر نہیں نکال سکتا'۔
صحافی اسد طور نے یوٹیوب چینل پر اپنے وی-لاگ میں کہا کہ فوج 2010-11 سے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہی تھی جس کا مقصد تھا نواز شریف اور آصف زرداری ہٹاؤ اور عمران خان کو لاؤ۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے مشن میں سرگرم کرداروں میں جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام شامل تھے۔ دونوں ہی ڈی جی آئی ایس آئی رہ چکے ہیں۔ 2014 کے دھرنے، 2011 کے جلسے کے ذریعے عمران خان کے لئے پورا ماحول بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے تو یہ تاثر ابھرا کہ نواز شریف نے آرمی چیف بنایا ہے تو یہ انہی کے وفادار ہوں گے۔ آرمی چیف بننے سے قبل کاکول کی اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ نے کہا تھا کہ ملک کی تباہی میں ہمارا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا سیاستدانوں کا ہے۔ فوج نے بھی اس ملک میں تین مارشل لا لگائے اور قریب 40 سالوں تک حکمرانی کی اور اسی دوران ملک ٹوٹا بھی۔ ان کے بارے میں یہی کہا جاتا تھا کہ وہ جمہوریت کے حمایتی، سویلین بالادستی اور فوج کو اس کے آئینی کردار کی حدود میں رکھنے والے جرنیل تھے۔
جب قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنے تو ادارے کے 'عمران خان پروجیکٹ' والے لوگ بشمول آئی ایس آئی والوں نے سوچا کہ قمر جاوید باجوہ کو اس نکتے پر لے کر آنا ہے جو ادارے کی سوچ ہے۔ شروعات میں جب انہوں نے چند دورے کیے تو ہر جگہ کچھ نوجوان افسران کو پلانٹ کیا جاتا تھا جو انہیں بتاتے تھے کہ 'سر دیکھیں ملک میں کتنی کرپشن ہے اور فوج کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ چور ملک بیچ دیں گے۔' ہر کورس میں 4، 5 سوال ایسے ہوتے تھے جن پر افسران کی جانب سے ایسے ہی تبصرے کیے جاتے تھے۔ جنرل باجوہ بھی اپنی سوچ پر مشکوک ہو گئے کہ شاید ادارہ میری سوچ کے برعکس سوچتا ہے۔
اس کے بعد جنرل باجوہ کے لئے بریفنگز کا اہتمام کیا گیا جس میں انہیں سب کی کرپشن، جائیدادوں، اکاؤنٹس کے حوالے سے تفصیلی طور پر بتایا گیا۔ اس کے بعد ایک کور کمانڈرز میٹنگ ہوئی۔ جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اب نواز شریف کو نہیں جانے دیں گے۔ پھر نواز شریف کو نااہل قرار دینے پر کام شروع ہوا۔ یہ ٹاسک جنرل فیض حمید کو دیا گیا۔ اس وقت فیض حمید آئی ایس آئی میں میجر جنرل، ڈی جی سی ہوتے تھے۔
جنرل نوید مختار جو ڈی جی آئی ایس آئی تھے، نواز شریف کے رشتہ دار میاں منیر کے بھائی تھے۔ چونکہ انہوں نے اس سب کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی تو فوج نے ان کو سائیڈ پر کر دیا اور ہدایات دیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر اپنی مدت پوری کریں، باقی ہم دیکھ لیں گے۔ ہم نے فیض حمید کو اس کام پر لگایا ہے وہ کرے گا۔
پھر 2018 کے انتخابات کا وقت آیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض، جو کور کمانڈر کوئٹہ بھی رہے، ان کو کور کمانڈر لاہور بنایا گیا۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ پنجاب کے انتخابات خصوصی طور پر لاہور کو انہوں نے دیکھنا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے پورے پنجاب کو لیڈ کیا۔ اور اتنی دلجمعی سے یہ کام کیا کہ اپنے ایک ماموں کو بھی الیکشن میں جتوا دیا۔ بلوچستان الیکشن کے لئے ن لیگ کو توڑا گیا۔ وہاں بلوچستان عوامی پارٹی بنائی گئی۔ یہ کام جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کیا۔ جب نواز شریف کی جانب سے 'مجھے کیوں نکالا' مہم چل رہی تھی تو جنرل عاصم سلیم باجوہ کور کمانڈر کوئٹہ تھے۔ وہ تب بھی اتنا پیسہ بنا رہے تھے کہ ان کے بچے ناصرف بیرون ملک مقیم تھے بلکہ وہاں پر پلازے اور پیزا چینز خرید رہے تھے۔
سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا اس وقت لیفٹننٹ جنرل ہوتے تھے۔ یہ بھی اس مشن کا حصہ تھے۔ لیفٹننٹ جنرل ہمایوں عزیز کور کمانڈر کراچی تھے۔ کراچی اور سندھ کی منیجمنٹ میں ان کا بھی فعال کردار رہا۔ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر اور موجودہ کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹننٹ جنرل آصف غفور بھی سرگرم ترین کرداروں میں سے تھے۔ انہوں نے عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا کے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ہدایت کی کہ پہلے 6 ماہ مثبت خبریں دیں پھر دیکھیں ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔ 'تبدیلی کے سال' والا بیان بھی انہی کا تھا۔
جنرل فیض حمید کا نام تو زبان زد عام ہے۔ ان کی تو داستانیں بھری پڑی ہیں کہ عمران خان کواقتدار میں لانے کے لئے انہوں نے کیا کچھ کیا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر بہت سرگرم تھے۔ کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو چھوٹا کرنے میں بھی کردار ادا کیا۔
جنوبی پنجاب کا انتظام کور کمانڈر ملتان لیفٹننٹ جنرل عبداللہ ڈوگر نے سنبھالا ہوا تھا۔ انہی کے زیر انتظام یہ واقعات ہوئے تھے جب ن لیگ کی ٹکٹ سے الیکشن کے لئے کھڑے امیدواروں نے نامزدگیاں واپس لینے کے آخری دن ن لیگ کے ٹکٹ واپس کر کے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے تھے۔ تاہم، بعد ازاں عبداللہ ڈوگر کے جنرل قمر باجوہ سے اختلافات بھی ہوگئے تھے۔ جس کے بعد وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اس بارے میں یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ چونکہ عبداللہ ڈوگر جنرل راحیل شریف کے چہیتے تھے اسی وجہ سے ان کو سائڈ لائن کیا گیا جس پر انہوں نے دلبرداشتہ ہو کر استعفا دے دیا۔ دوسری جانب یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مبینہ طور پر انہوں نے کرپشن کی تھی جس کی وجہ سے ان سے جبری طور پر استعفا لیا گیا۔
کور کمانڈر گوجرانوالہ عامر عباسی کا بھی عمران خان کو اقتدار میں لانے کے مشن میں بڑا سرگرم کردار تھا۔ لیکن اس کے باوجود ن لیگ نے گوجرانوالہ میں اکثریت حاصل کی تھی۔ کور کمانڈرمیٹنگ میں ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کھسیانے سے ہو کر جواب دیا کہ ذمہ داری تو آئی ایس آئی کی تھی، میں تو کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
الیکشن کا بنیادی منصوبہ یوں تھا کہ 25 جولائی کو عام انتخابات تھے تو اس سے ایک روز پہلے تک امیدواروں کی خرید و فروخت کی جائے گی۔ پارٹیوں سے امیدواروں کو توڑیں گے۔ پھر انتخابات والے دن شفاف الیکشن کروا دیں گے۔ تاکہ یہ دکھا سکیں کہ بغیر رکاوٹ بالکل شفاف الیکشن ہوئے ہیں۔ اور نواز شریف ووٹ کم ملنے سے ہار گیا۔ لیکن جب نواز شریف اور مریم نواز نے آ کر گرفتاری دی تو ن لیگ کے ووٹر پھر مرعوب ہوئے اور ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی۔
الیکشن سے 3، 4 روز قبل فوج کے پاس نئے سروے آئے جس میں ن لیگ کے پنجاب میں واپسی کے امکانات واضح تھے۔ ن لیگ کا ووٹر جو پہلے مایوس تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز واپس نہیں آئیں گے وہ پھر سے کھڑا ہو چکا تھا۔ تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن والے دن بھی منیجمنٹ کی جائے گی۔ الیکشن کے بعد پولنگ ایجنٹس کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔ ووٹ کاؤنٹ تک رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم وغیرہ کو بند کیا جائے گا اور پی ٹی آئی کو اکثریت دلوائی جائے گی۔ یوں پاکستان کی تاریخ کے بدنام ترین انتخابات میں سے ایک میں من مرضی نتائج نکالے گئے، جس کا خمیازہ ملک آج بھی بھگت رہا ہے۔